السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کسی عورت کا شوہر عنین (نامرد ) ہواور شوہر اس کا طلاق نہیں دیتا ہے اور وہ عورت طلاق چاہتی ہے تو ایسی حالت میں وہ عورت کیا کرے گی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کسی عورت کا شوہر عنین ہے اور وہ اس کو طلاق نہیں دیتا ہے اور عورت طلاق چاہتی ہے تو وہ عورت خلع یا کسی دوسری طرح تفریق کرائے گی۔اگر چہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی واقعہ بعینہ اس قسم کا نہیں ہوا تھا جس کو ہم سند میں پیش کر سکیں مگر آثار صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کی نظیر میں موجود ہیں دیکھو ہدایہ (400/1مطبوعہ مصطفائی ) میں ہے
"وإذا كان الزوج عنينا أجله الحاكم سنة فإن وصل إليها فبها وإلا فرق بينهما إذا طلبت المرأة ذلك" هكذا روي عن عمر وعلي وابن مسعود رضي الله تعالى عنهم ولأن الحق ثابت لها في الوطء ويحتمل أن يكون الامتناع لعلة معترضة ويحتمل لآفة أصلية فلا بد من مدة معرفة لذلك وقدرناها بالسنة لاشتمالها على الفصول الأربعة فإذا مضت المدة ولم يصل إليها تبين أن العجز بآفة أصلية ففات الإمساك بالمعروف ووجب عليه التسريح بالإحسان فإذا امتنع ناب القاضي منابه ففرق بينهما ولا بد من طلبها لأن التفريق حقها "
(جب شوہر نامرد ہو تو حاکم وقت اس کو (علاج کے لیے) ایک سال کی مہلت دے گا اس کے بعد اگر وہ اپنی بیوی سے جماع کرنے پر قادر ہو گیا تو ٹھیک ورنہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی جب عورت اس کا مطالبہ کرے چنانچہ عمر علی اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے یہی مروی ہے کیوں کہ عورت کے لیے وطی کا حق ثابت ہے اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہ رکاوٹ کسی پیش آمدہ علت کے سبب سے ہو۔ نیز اس میں آفت اصلیہ کا بھی احتمال ہے لہٰذا کچھ مدت کی مہلت دی جانی چاہیے جس سے صورت حال واضح ہو سکے ہم نے ایک سال کی مدت مقرر کی ہے کیوں کہ سال چار موسموں پر مشتمل ہو تا ہے۔پس جب یہ مدت گزر جائے اور وہ اپنی بیوی سے وطی نہ کر پائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اس کی یہ عاجزی اور کمزوری آفت اصلیہ کی وجہ سے ہے تو اس مرد سے عورت کو معروف طریقے کے ساتھ اپنے پاس روکنے کا حق نہ رہا لہٰذا اس پر لازم ہے کہ وہ عورت کو بھلے طریقے سے رخصت کردے پھر اگر وہ ایسا کرنے سے باز رہے تو قاضی اس کا نائب اور قائم مقام بن کر ان دونوں کے درمیان جدائی کرادے گا مگر اس میں عورت کی طرف سے ایسا کرنے کا مطالبہ ہونا ضروری ہے کیوں کہ( مذکورہ بالا صورت حال میں) جدائی اور تفریق عورت کا حق ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہ واقعہ ہوا ہے کہ عورت نے کسی دوسرے سبب سے جو اس سبب کے مقابلے میں نہایت خفیف کہا جا سکتا ہے طلاق چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان تفریق کرادی۔
"عن ابن عباس ، أن امرأة ثابت بن قيس بن شماس أتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت : يا رسول الله ، ثابت بن قيس ما أعتب عليه في خلق ولا دين ، ولكني أكره الكفر في الإسلام . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أتردين عليه حديقته ؟ قالت : نعم ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اقبل الحديقة وطلقها تطليقة ". [1](روا البخاري والنسائي)
(عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس (ثابت بن قیس اپنے شوہر ) پر دین یا اخلاق کے لحاظ سے کوئی عیب نہیں لگاتی لیکن میں مسلمان ہو کر کفر کے کام کرنا ناپسند کرتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" کیا تو اس کا دیا ہوا باغ اسے واپس کردے گی؟اس نے کہا جی ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ثابت قیس کو) فرمایا ۔باغ واپس لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو)
[1] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (4971)سنن النسائي رقم الحدیث (3463)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب