السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے ہندہ سے شادی کی قبل شادی عارضہ جذام زید کو نمایا ں نہ تھا بعد شادی اچھی طرح سے عارضہ جذام ظاہر ہو گیا اور ہندہ نے اپنے شوہر مجذوم سے کنارہ کشی کی اب ہندہ اپنے شوہر زید سے خلع چاہتی ہے مگر زید راضی نہیں ہوتا ایسی حالت میں ازروئے حکم شرع شریف ہندہ خلع کراسکتی ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورت میں جب عورت خلع چاہتی ہے تو شوہر کو اس سے انکار کرنا نہیں چاہیے خلع کردینا چاہیے جیسا کہ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار نہیں کیا تھا ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بد صورت آدمی تھے اس لیے ان کی بی بی کو سخت ناپسند تھے لہٰذا ان کی بی بی نے خلع چاہا تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ خلع کردو۔ ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلاانکار خلع کردیا۔
"عن ابن عباس ، أن امرأة ثابت بن قيس بن شماس أتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت : يا رسول الله ، ثابت بن قيس ما أعتب عليه في خلق ولا دين ، ولكني أكره الكفر في الإسلام . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أتردين عليه حديقته ؟ قالت : نعم ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اقبل الحديقة وطلقها تطليقة ". [1](روالبخاری والنسائی)
(عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس (ثابت بن قیس اپنے شوہر ) پر دین یا اخلاق کے لحاظ سے کوئی عیب نہیں لگاتی لیکن میں مسلمان ہو کر کفر کے کام کرنا ناپسند کرتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" کیا تو اس کا دیا ہوا باغ اسے واپس کردے گی؟اس نے کہا جی ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ثابت قیس کو) فرمایا ۔باغ واپس لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو)
"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ جَمِيلَةَ بِنْتَ سَلُولَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : وَاللَّهِ مَا أَعْتِبُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ ، وَلاَ خُلُقٍ ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الإِسْلاَمِ ، لاَ أُطِيقُهُ بُغْضًا ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهَا حَدِيقَتَهُ ، وَلاَ يَزْدَادَ."[2](رواہ ابن ماجہ متقی الاخبار مطبوعہ فاروقی دہلی ص239)
(عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جمیلہ بنت سلول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی اللہ کی قسم ! میں ثابت (بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے دین اور اخلاق (کی کسی خرابی ) کی وجہ سے ناراض نہیں لیکن مجھے مسلمان ہوتے ہوئے (خاوند کی) نافرمانی کرنا اچھا نہیں لگتا مجھے وہ اتنے برے لگتے ہیں کہ ان کی بات نہیں مان سکتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :"کیا تم اسے اس کا باغ واپس دے دو گی۔انھوں نے کہا جی ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےثابت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ ان سے باغ واپس لے لو اور زائد کچھ نہ لیں)
وفي رواية عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده عند ابن ماجه ان ثابت بن قيس كان دميما وان امراته قالت:لولا مخافة الله اذا دخل علي لبشفت في وجهه[3]بلوغ المرام مطبوعہ ایضاً ص71)
(سنن ابن ماجہ میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ بلا شبہ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوش شکل آدمی نہ تھے ان کی بیوی نے کہا اگر اللہ کا ڈر نہ ہوتا تو جب وہ میرے پاس آتے ہیں میں ان کے چہرے پر تھوک دیتی)
[1] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (4971)سنن النسائي رقم الحدیث (3463)
[2] ۔سنن ابن ماجه رقم الحدیث (2056)
[3] ۔سنن ابن ماجه رقم الحدیث(2057)اس کی سند ضعیف ہے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں في اسناد ہ حجاج بن ارطاة مدلسن وقد عنعنه
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب