سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(348) والدہ کی وفات کے بعد لڑکے کے حقوق پرورش کون ادا کرے گا؟

  • 23113
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1775

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہندہ نے بحالت زچگی انتقال کی اور ایک لڑکا تین یوم کا اور خاوند ماں اور باپ وارث چھوڑ ے ہیں تقسیم مہر اور جہیز اور متعلقہ مال متروکہ کی کیونکر ہوگی اور نیز لڑکے کی پرورش کیونکر ہوگی اور اس کے اخراجات پرورش کون دے گا اور لڑکے کا حصہ کس کی تحویل میں رہے گا۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں بعد تقدیم علی الارث ورفع موانعہ کل مال متروکہ ہندہ بارہ سہام (حصوں ) پر تقسیم ہو گا اس میں سے تین سہام یعنی چار آنے خاوند کو اور دو سہام (یعنی دو آنے آٹھ پائی ) باپ کو اور اسی قدر ماں کو اور باقی پانچ سہام (یعنی چھ آنے آٹھ پائی ) لڑکے کو ملے گا اس کی دلیل آیات و حدیث ذیل ہیں۔

(1) ﴿فَإِن كانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمّا تَرَكنَ مِن بَعدِ وَصِيَّةٍ يوصينَ بِها أَو دَينٍ...﴿١٢﴾... سورة النساء

(پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمھارے لیے اس میں سے چوتھا حصہ ہے جو انھوں نے چھوڑا اس وصیت کے بعد جووہ کر جائیں یا قرض (کے بعد)

2۔﴿وَلِأَبَوَيهِ لِكُلِّ و‌ٰحِدٍ مِنهُمَا السُّدُسُ مِمّا تَرَكَ إِن كانَ لَهُ وَلَدٌ...﴿١١﴾... سورة النساء

(اور اس کے ماں باپ کے لیے ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے جو اس نے چھوڑا اگر اس کی کوئی اولاد ہو)

عن ابن عباس رضي الله عنه قال:قال رسول الله صلي الله عليه وسلم((الحقو الفرائض  باهلها فما بقي فهو لاولي رجل ذكر))[1](متفق علیه مشکوة ص2559)

(عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مستحقین کو ان کے مقرر ہ حصے دو اور جو باقی بچے وہ (میت کے) قریب ترین مرد (رشتے دار) کا حصہ ہے)

لڑکے کی پرورش لڑکے کی نانی کے متعلق ہوگی اگر وہ اس کی پرورش کی خواستگار ہو ورنہ اس کے باپ کے متعلق ہوگی اور اس کے اخراجات پرورش صرف باپ دے گا اور لڑکے کا حصہ بھی باپ ہی کی تحویل میں رہے گا۔

فصل: ذكر حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم في الولد من أحق به في الحضانة:

روى أبو داود في "سننه": من حديث عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده عبد الله بن عمرو بن العاص، أن امرأة قالت: يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء، وثديى له سقاء، وحجري له حواء، وإن أباهُ طلقني، فأراد أن ينتزعه منى، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أنت أحق به ما لم تنكحي" "[2](زادالمعاد :289/2)

(بچے کی نگہداشت اور تربیت کا کون زیادہ حق دار ہے؟ اس کے بارے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم اور فیصلے کا ذکر امام ابوداؤد  رحمۃ اللہ علیہ   نے اپنی سنن میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی حدیث بیان کی ہے کہ ایک عورت نے کہا: یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  !میرا یہ بیٹا میرا پیٹ اس کے لیے برتن میرا سینہ اس کے لیے مشکیزہ اور میرا دامن اس کے لیے پناہ گا ہ رہا ہے اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو مجھ سے چھین لے؟ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے فرمایا : تو اس کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو نکاح نہ کرے)

" والولاية على الطفل نوعان : نوع يقدم فيه الأب على الأم ومن في جهتها وهي ولاية المال والنكاح ، ونوع تقدم فيه الأم على الأب وهي ولاية الحضانة والرضاع ، وقدم كل من الأبوين فيما جعل له من ذلك لتمام مصلحة الولد وتوقف مصلحته على من يلي ذلك من أبويه وتحصل به كفايته .

 ولما كان النساء أعرف بالتربية وأقدر عليها وأصبر وأرأف وأفرغ لها لذلك قدمت الأم فيها على الأب .

 ولما كان الرجال أقوم بتحصيل مصلحة الولد والاحتياط له في البضع [الزواج] قدم الأب فيها على الأم (زاد المعاد290/2)

(بچے کی ولایت کی دو قسمیں ہیں ایک قسم میں باپ کو ماں اور اس کی طرف سے جو بھی ہے پر مقدم رکھا گیا ہے یہ مال اور نکاح کی ولایت ہے دوسری قسم میں ماں کو باپ پر مقدم کیا گیا ہے اور یہ پرورش و تربیت اور رضاعت کی ولایت ہے۔چونکہ عورتیں عملی تربیت کو زیدہ جانےوالی ہیں اس پر زیادہ قدرت رکھتی ہیں اس پر صبر کرنے والی ہیں اس کام کے لیے زیادہ فراغت و فرصت رکھتی ہیں اور بچے پر نرمی کرنے والی ہیں اسی لیے اس میں ماں کو باپ پر مقدم کیا گیا ہے جب کہ مرد بچے کی مصلحت کے حصول اور شہوانی معاملات میں اس کی زیادہ حفاظت کرنے والے ہیں اس لیے اس کے متعلق ولایت میں باپ کو ماں پر مقدم کیا گیا ہے)

"وثبت عنه  صلي الله عليه وسلم في الصحيحين ان هندا امراة ابي سفيان قالت له ان ابا سفيان رجل شحيح ليس يعطني من النفقة مايكفيني وولدي الا ما اخذت منه وهو لا يعلم؟فقال:((خذي ما يكفيك وولديك بالمعروف))[3](زاد المعاد304/2)

(بخاری و مسلم میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ ابو سفیان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیوی ہندہ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کی بلاشبہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پیسہ سنبھال کر رکھنے والی بخیل آدمی ہیں وہ مجھے اتنا (خرچ) نہیں دیتے جو مجھے اور میرے بچوں کو کافی ہو سوائے اس کے کہ میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال میں سے کچھ لے لوں(تب گزارہ ہو سکتا ہے) تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : اتنا لے لو جو تمھیں اور تمھاری اولاد کو مناسب حد تک کافی ہو)

فيه دليل علي تفرد الاب بنفقة اولاده ولا  تشاركه فيها الام((زاد المعاد304/2)

(اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ باپ اپنی اولاد کے نفقے کا تنہا ذمہ دار ہے اس فریضے میں ان کی ماں شریک نہیں ہے)

ونفقة الاولاد الصغار علي الاب لايشاركه فيها احد[4](هدایة باب النفقة )

(چھوٹے بچوں کا نفقہ باپ کے ذمے ہے اس میں کوئی اور اس کے ساتھ شریک نہیں)


[1] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (6351)صحیح مسلم رقم الحدیث(1615)

[2] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (7176)

[3] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (5049)صحیح مسلم رقم الحدیث (1714)

[4] ۔الھدایة (ص:291)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:551

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ