السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسماۃ ہندہ نے حاکم کے پاس استغاثہ کیا کہ شوہر میرا ہم کو کھانے پینے کو کچھ نہیں دیتا ہے اس پر حاکم نے اس کے شوہر کو بلاکر اظہار کیا شوہر نے اظہار کیا کہ ہم اس کو نان و نفقہ کیوں دیں ہم نے اس کو طلاق دیا ہے مگر گواہوں سے حاکم کے سامنے طلاق دینا اس کا ثابت نہیں ہوا تب اس کے شوہر نے کہا اگر پہلے نہیں دیا تھا تو اب ہم نے اس کو طلاق دیا طلاق دیا طلاق دیا پس موافق کتاب و سنت کے اس پر طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ طلاق جو شوہر مسماۃ ہندہ نے اس کو روبروئے حاکم کے دیا ہے واقع ہوئی اور اب شوہر مسماۃ مذکورہ پر مسماۃ مذکورہ کو ایام عدت تک کا نفقہ و سکنی دینا واجب ہے۔
"روي عن ابي هريرة رضي الله عنه قال; قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ((ثلاث جدهن جد‘ وهزلهن جد: النكاح والطلاق والرجعة"[1]
رواہ الخمسة الالنسائي وقال الترمذي حدیث حسن غریب نیل الاوطار159/6)
(ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین باتیں ایسی ہیں اگر کوئی ان کو حقیقت اور سنجیدگی میں کہے تو حقیقت ہیں اور ہنسی مزاح میں کہے تو بھی حقیقت ہیں نکاح طلاق اور (طلاق سے) رجوع)
"وقال علي:وكل الطلاق جائز الا طلاق المعتوه"(صحیح البخاری794/2)
(علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ دیوانے کی طلاق کے سوا ہر طلاق جائز ہے)
﴿أَسكِنوهُنَّ مِن حَيثُ سَكَنتُم مِن وُجدِكُم...﴿٦﴾... سورة الطلاق
(انھیں وہاں سے رہایش دوجہاں تم رہتے ہو اپنی طاقت کے مطابق )
﴿لِيُنفِق ذو سَعَةٍ مِن سَعَتِهِ...﴿٧﴾... سورة الطلاق
(لازم ہے کہ وسعت والا اپنی وسعت میں سے خرچ کرے)
[1] ۔سنن ابي داؤد رقم الحدیث (2194)سنن الترمذي رقم الحدیث (1184) سنن ابن ماجه رقم الحدیث (2039)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب