السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے اپنی زوجہ ہندہ سے بحالت نادانستگی و نافہمی کہہ دیا کہ تو اگر بغیر میری اجازت لیے والدہ یا ہمشیرہ کے یہاں گئی تو تجھ کو تین طلاق ہے ازاں بعد ہندہ اپنے والدین کے یہاں باجازت زوج (یعنی زید کے) گئی پھر زید کسی کار ضروری سے کہیں چلا گیا تھا بروز شب براءت ہندہ اپنی ہمشیرہ کے یہاں جانا چاہتی تھی لیکن زید چونکہ موجود نہ تھا زید کے موجود نہ ہونے سے ہندہ جو منکوحہ زید ہے سخت رنجیدہ اور غمگین ہوئی زید کابرادر جو گھر میں موجود تھا اس نے ہندہ کو غمگین پاکر ہندہ کو اس کی ہمشیرہ کے یہاں جانے کی اجازت دے دی اور وہ چلی گئی جب زید مکان پر آیا اور اس کے جانے کی خبر معلوم کی کہ بھائی نے اجازت دے دی ہے تو اس نے کہا کہ بھائی کا اجازت دے دینا میری ہی اجازت ہے تو کیا بریں صورت عندالشرع طلاق ہو گئی یا نہیں؟اگر واقع نہ ہو تو فہوالمراد(یہی مقصود ہے) اگر واقع ہو تو پھر نکاح کا کیا طریق ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زید نے جس وقت الفاظ طلاق مذکورہ سوال استعمال کیے تھے لفظ ’’میری اجازت‘‘ سے اگر خاص اپنی اجازت مراد لی ہےتو اس صورت میں ہندہ پر طلاق واقع ہوگئی مگر صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوئی جس میں عدت کے اندرزید رجوع کر سکتا ہے اور اگر عدت گزر چکی ہو تو بتراضی طرفین دونوں میں نکاح جدید ہو سکتا ہے اس صورت میں طلاق رجعی واقع ہونے میں شرط یہ ہے کہ ہندہ نکاح کے بعد زید کی مدخولہ ہو چکی ہو ورنہ صرف ایک طلاق رجعی ہوئی جس میں زید رجوع تو نہیں کر سکتا لیکن بتراضی دونوں میں نکاح جدید ہوسکتا ہے۔اگر اس وقت میں زید نے لفظ میری اجازت سے اپنی خاص اجازت مراد نہیں لی تھی بلکہ مجاز اً اپنی اجازت مراد لی تھی جو بھائی کو بھی شامل ہے تو اس صورت میں ہندہ پر طلاق واقع نہیں ہوگی بھائی کی اجازت زید کی اجازت ہوگی تو ہندہ اس صورت میں بغیر اجازت زید کے اپنی ہمشیرہ کے یہاں نہیں گئی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب