السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجرد گالی دینے ہندہ کے لفظ طلاق طلاق کا بلا اشارہ کے بمقابلہ ایک کر کے بحالت غصہ شوہر ہندہ کے زید کے منہ سے نکل گیا آیاا اس امر میں اوپر ہندہ کے طلاق بائن عائدہو گا یا نہیں۔اس کا جواب کماحقہ بد لائل قرآن و حدیث کے مرحمت فرمایا جائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورت میں ہندہ پر طلاق بائن تو عائد نہیں ہوئی لیکن طلاق رجعی عائد ہوئی یا نہیں ؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے وہ یہ کہ اگر زید کے منہ سے یہ الفاظ بحالت غصہ بلاقصد نکل گئے تھے تو اس صورت میں طلاق رجعی بھی نہیں۔ہوئی اگر بالقصد نکلے تھے تو اگر اس وقت زید کی نیت ہندہ کے طلاق دینے کی نہ تھی تو بھی رجعی نہیں ہوئی اور اگر اس وقت ہندہ کے طلاق دینے کی نیت تھی تو طلاق رجعی عائد ہوئی جس میں زید کو اختیار ہے کہ عدت کے اندراس طلاق کو واپس کر لے اور اگر عدت گزر چکی ہو اور تجدید نکاح پر دونوں راضی ہوں تو تجدید نکاح کرلے۔
"صفية بنت شيبة قالت:سمعت عائشة رضي الله عنها تقول:سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول:(( لا طلاق ولا عتاق في غلاق)) قال ابو داود :الغلاق اظنه الغضب"[1](سنن ابی داؤد مطبوعه مصر(1/217)
(صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا غلاق میں نہ طلاق ہے اور نہ غلام کو آزاد کرنا ۔"امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ غلاق سے مراد غضب و غصہ ہے)
وقد فسر الاغلاق بالغضب الامام احمد ايضا وفسره ابو عبيد وغيره بالاكراه وفسره آخرون بالجنون"[2]کذاقال الحافظ ابن القیم فی زاد المعاد (ص203)
(امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اغلاق کا معنی غضب و غصہ بیان کیا ہے ابو عبید وغیرہ نے اس کا معنی جبرو اکراہ کیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کا معنی جنون کیا ہے)
"ثم قال قال شيخنا وحقيقه الاغلاق ان يغلق علي الرجل قلبه فلا يقصد الكلام اولا يعلم به كانه انغلق عليه قصده وارادته"
(ہمارے شیخ نے کہا: اغلاق کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے لیے اس کا دل بند کر دیا جائے پس وہ کلام کا قصد کرے نہ اس کا مفہوم جانے گویا اس پر اس کا قصد وارادہ بند ہو گیا)
"قلت:قال ابو العباس المبرد:الغلق ضيق الصدر وقلة الصبر‘بحيث لا يجد له مخلصا قال شيخنا:ويدخل في ذلك طلاق المكره والمجنون ومن زال عقله بسكر او غضب وكل من لا قصد له ولا معرفة له بما قال ‘والغضب علي ثلاثة اقسام احدها ما يزيل العقل فلا يشعر صاحبه بماقال وهذا لا يقع طلاقه بلا نزاع والثاني ما يكون في مباديه بحيث لا يمنع صاحبه بما قال وهذا لا يقع طلاقه بلا نزاع والثاني ما يكون في مباديه بحيث لا يمنع صاحبه من تصور ما يقول وقصده فهذا يقع طلاقه الثالث ان يستحكم ويشتد به فلا يزيل عقله بالكلية ولكن يحول بينه وبين نيته بحيث يندم علي ما فرط منه اذا زال فهذا محل نظر وعدم الوقوع في هذه الحالة قوي متجه والله اعلم بالصواب(زاد المعاد مطبوعه نظامي:٢/٢-٤)
(میں کہتا ہوں کہ ابو العباس المبردنے کہا غلق کا معنی ہے سینے کا تنگ ہونا اور صبر کا کم ہونا اس طور پر کہ اس سے نجات کاکوئی وسیلہ نہ ہو۔ہمارے شیخ نے کہا اس کے مفہوم میں مجبور و مجنون کی طلاق بھی داخل ہے اور اس کی بھی جس کی عقل نشے اور غصے سے زائل ہو چکی ہو نیز اس کی جس کا کوئی قصد وارادہ ہو اور نہ اسے یہ سمجھ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے غضب و غصے کی تین قسمیں ہیں ایک قسم تو یہ ہے جو عقل کو اس طرح زائل کرتی ہے کہ اسے کچھ معلوم نہیں ہو تا کہ اس نے کیا کہاہے؟اس صورت میں تو بلانزاع طلاق واقع نہیں ہوتی دوسری قسم وہ ہے کہ غصہ اس شخص کو اپنے قول و قصد کے تصور اور سمجھ سے نہ روکے تو اس صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی تیسری قسم یہ ہے کہ اس کا غصہ مستحکم اور شدید تو ہو مگر اس سے اس کی عقل کلیتاً زائل نہ ہو لیکن وہ اس کے اور اس کی نیت کے درمیان اس طرح حائل ہوجائے کہ اسے غصہ زائل ہونے کے بعد اپنی اس زیادتی پر ندامت ہوتو یہ محل نظر ہے اور اس حالت میں طلاق کا عدم وقوع زیادہ قوی اور مناسب ہے)
[1] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2193)
[2] ۔زاد المعاد (5/195)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب