سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(334) نابالغ کی طلاق اور نکاح کے وقوع کا مسئلہ

  • 23099
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 848

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نابالغ کی طلاق اور نکاح کے وقوع کا مسئلہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق ایک جلسہ میں دیا جس کی عمر بارہ برس کی ہے اور بیوی کی عمر نو برس کی ہے یعنی دونوں نابالغ ہیں اور دو گواہ کے سامنے طلاق دیا ہے طلاق ہوا یا نہیں ؟اگر ہوا ہو تو مہر پوری اداکی جائے۔یا نصف ادا کی جائے اور عدت و کپڑا کس قدر دیا جائے ؟اس کا فتوی چاہیے اور دوسرے اس کا بھی مسئلہ چاہیے کہ لڑکی کا والد جو شادی کے وقت  جہیز دیا تھا پھر مانگتا ہے اور لڑکے کا والد اپنا زیور جو شادی کے وقت دیا ہے پھر مانگتا ہے دونوں فریقین میں فساد ہے اور اگر طلاق نہ ہوہواتو اور ہوا ہو تو بھی فرمائیے گا اور طلاق اس باعث سے ہوا ہے کہ سسر نے اپنے داماد کو گالیاں دی ہیں تو اس نے طلاق دیا ہے اس پتے پر فتوی روانہ فرمائیے گا۔ضلع پر تاب گڑھ ۔

يحبس عليه ويضيق عليه حتي يطلق قال ابن الاعرابي غلق زيد عمرا علي شئي يفعله اذا اكرهه عليه(لسان العرب:١٢/١٦٥)

(حدیث میں ہے کہ اغلاق میں طلاق نہیں اور نہ غلام کو آزاد کرنا ہے یعنی اکراہ میں اغلاق کا معنی اکراہ ہے۔کیوں کہ مغلق کو اس کے معاملے میں مجبور کیا جا تا ہے اور اس کے تصرف میں اس پر تنگی کی جاتی ہےگو یا اس پر دروازہ بند کر دیا جا تا ہے اسے قید کردیا جا تا ہے اور اس کی آزادی تک اس پر تنگی کی جاتی ہے ابن الاعرابی نے کہا "غلق زيد عمرا علي شئي يفعله" اس وقت بولا جا تا ہے جب زید نے اسے مجبور کر دیا ہو) 

"اکراہ"کے معنی ہیں بزوروستم کسی کو کسی کام پر رکھنا قاموس میں ہے:

جبره علي الامر اكرهه كاجبره انتهي[1]

("جبره علي الامر "کا مطلب ہے"اکرمہ " (اس نے اسے مجبور کیا) یہ "اجبرہ کی طرح ہے) "غیاث اللغات"میں ہے "اکراہ بزورو ستم کسے رابرکارے داشتن واجبار کسے رابزور برکارےداشتن "(اکراہ"کا مطلب ہے کہ زور و ستم سے کسی کوکسی کام پر لگانا اور "اجبار"کا مطلب ہے کہ کسی کو زبردستی کے ساتھ کسی کام پر رکھنا)

عبارت سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس وقت بکر سے طلاق دلوائی گئی تھی اس وقت بکر کی حالت پر اکراہ کی تعریف صادق آتی تھی پس اس بناپر ہندہ وہ طلاق تو واقع نہیں ہوئی لیکن جس وقت بکر سے شرطیہ طلاق نامہ لکھوایا گیا اس وقت اور جس وقت بکر نے وہاں سے گریز کیا اس وقت بکر کی حالت پر اکراہ کی تعریف صادق آتی تھی یا نہیں؟عبارت سوال سے کوئی بات صاف معلوم نہیں ہوتی اور نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بکر نے جس مجبوری سے گریز کیا تھا وہ مجبوری کیا تھی ؟لہٰذا جب تک کوئی صاف بات معلوم نہ ہو تب تک نہ وقوع طلاق کا حکم لگایا جا سکتا ہے اور نہ عدم وقوع طلاق کا۔


[1] ۔القاموس المحیط (ص360)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:536

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ