السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے اپنی زوجہ ہندہ کے روبرو بحالتِ فرطِ غضب بیک جلسہ تین مرتبہ کہا کہ طلاق دیا، طلاق دیا، طلاق دیا اور زید کا یہ بیان ہے کہ میرا ارادہ زوجہ کو طلاق دینے کا تھا، مگر رجعی، یعنی غیر بائن، اور طلاق سنی کا طریقہ اس کو معلوم تھا اور اس کا خیال اور عقیدہ پہلے سے اور اس وقت بھی مستحکم تھا کہ طلاق بائن صرف طریقہ معینہ مسنونہ کے ساتھ ہوتا ہے اور طلاق بدعی بائن نہیں ہوتا ہے، بلکہ رجعت کا اختیار ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حالاتِ مذکورہ بالا میں طلاق بائن ہوا یا نہیں؟ مطابق حکمِ خدا و رسول کے جواب عنایت ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورتِ مسؤلہ میں صرف ایک طلاق رجعی پڑی اور بعد کو جو زید نے دوبارہ لفظ ’’طلاق دیا‘‘ کہا، وہ لغو ہوگیا، لیکن بالقصد کہا تو گنہگار ہوا۔ قال الله تعالیٰ:
﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمسِكوهُنَّ بِمَعروفٍ أَو سَرِّحوهُنَّ بِمَعروفٍ وَلا تُمسِكوهُنَّ ضِرارًا لِتَعتَدوا وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ...﴿٢٣١﴾... سورة البقرة
"اور جب تم عور توں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو،یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو اور انھیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو ،تاکہ ان پر زیادتی کرو اور جو ایسا کرے،سو بلا شبہ اس نے اپنی جان پر ظلم کیا"
﴿الطَّلـٰقُ مَرَّتانِ فَإِمساكٌ بِمَعروفٍ أَو تَسريحٌ بِإِحسـٰنٍ...﴿٢٢٩﴾... سورة البقرة
(یہ طلاق (رجعی) دوبار ہے پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے)
’’حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا سعد بن إبراھیم ثنا أبي عن محمد بن إسحاق حدثني داؤد بن الحصین عن عکرمة مولی ابن عباس عن ابن عباس قال: طلق رکانة بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأتة ثلاثا في مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا۔ قال: فسأله رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( کیف طلقتھا؟ )) قال: طلقتھا ثلاثا۔ قال: فقال: (( في مجلس واحد؟ )) قال: نعم۔ قال: (( فإنما تلک واحدة، فارجعھا إن شئت )) قال: فرجعھا‘‘ الحدیث (في المشکوة، ص: ۲۷۶) [1]
[مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ میں ہے، ہمیں عبد الله نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے داود بن حصین نے بیان کیا، وہ عکرمہ مولی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، وہ عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ بنو مطلب کے ایک فرد رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، پھر وہ اس پر سخت غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ’’تم نے اس (اپنی بیوی) کو کیسے طلاق دی؟‘‘ رکانہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ صرف ایک طلاق ہی ہے، اگر تم چاہو تو اس سے رجوع کر لو۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رجوع کر لیا]
’’عن محمود بن لبید قال: أخبر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطلیقات جمیعا، فقام غضبان، ثم قال: (( أیلعب بکتاب اللّٰه ، وأنا بین أظھرکم؟ )) حتی قام رجل فقال: یا رسول اللّٰه ! ألا أقتلہ؟‘‘[2] (روہ النسائي)
[رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا، جس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’کیا میری موجودگی میں الله تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جاتا ہے؟‘‘ حتی کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟]
[1] مسند أحمد (۱/ ۲۶۵)
[2] سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۴۰۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب