اللہ تعالیٰ کی معرفت کیسی حاصل کی جا سکتی ہے؟
اگر یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی بہت سخی ہے اور اس کی خوبی یہ ہے کہ جو اس سے مانگے وہ دے دیتا ہے، یہ سنتے ہی تو اس کی عنایت پر توجہ کرے گا اور دل میں اس کا احترام کرے گا ۔ اس خوبی کا علم ہونے کے بعد ضرورت پڑنے پر تو اس آدمی کی سخاوت سے فائدہ اٹھائے گا۔ اور اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ فلاں بخیل و کنجوس آدمی ہے توسارا معاملہ الٹ ہو جائے گا۔
اگر یہ کہا جائے کہ حکومت وقت انتہائی عادل ہے جو بھی اس ملک میں رہتا ہے اس کا انتہائی خیال رکھتی ہے اور جو قانون کی خلاف ورزی کرے اس کا سختی سے محاسبہ کرتی ہے، تو اب لوگ اس ملک میں اس طور زندگی بسر کریں گے کہ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سہولتوں سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے، نظام عدل کے فوائد سے بہرہ ور ہوں گے ، قانون کا احترام کریں گے، اور جس قدر خوبیاں اس حکومت میں پائی جائیں گی اسی قدر لوگ اس سے محبت کریں گے۔ اس ملک میں بسنے والوں کی انتہائی کوشش ہو گی کہ اپنے آپ کو سزا سے محفوظ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ کی مثال تو بہت عظیم ہے۔ جو آدمی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات کو جان لے اور اسمائے حسنیٰ کو پوری طرح پہچان لے تو آسمانوں اور زمین کے مالک کے بارے میں اس کا علم بہت وسیع ہو جائے گا اور جس قدر اس کو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا علم ہو گا اسی طرح سیرت و کردار میں ڈھلتا چلا جائے گا۔ کافروں کا تو معاملہ ہی علیحدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
’’ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔‘‘
قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں تحریف و تبدیل کرنے سے خبردار اور متنبہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (١٨٠)﴾ (الاعراف)
’’ اللہ تعالیٰ کے سارے نام اچھے ہیں، اس کو اچھے ناموں ہی سے پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں ۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پا کر رہیں گے۔‘‘
قرآن کریم نے اس پر بھی متنبہ کیا ہے کہ جو نام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے مقام و مرتبہ کے شایان شان نہیں وہ اس کے لیے تجویز نہ کیے جائیں۔ فرمایا:
’’ اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق ( مخلوق ) کو لے کر الگ ہو جاتا اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔‘‘
انسان کا علم تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بارے میں بھی واجبی سا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے بارے کس طرح کا مل معلومات پا سکتا ہے۔
ذرا غور کریں، ساتوں آسمان تو کرسی کے مقابلے میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم کسی ڈھال کے اندر ہوں اور خود کرسی عرش الٰہی کے سامنے یوں ہے جیسے لوہے کا کڑا کسی لمبے چوڑے صحرا میں ہو۔ قرآن حکیم نے بیان کیا ہے:
’’رحمن کی ذات عرش پر مستوی ہے۔‘‘
ہمارے علم کا حال تو یہ ہے کہ دنیا کے آسمان پر چمکنے والے ستاروں کو بھی ابھی تک نہیں پا سکا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے بارے میں صحیح اور مکمل معلومات تک ہماری رسائی کیسے ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آ سکتی، الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ ہم اللہ کے بارے میں کوئی علم نہیں پا سکتے الا یہ کہ خود اللہ تعالیٰ ہماری تعلیم کا کوئی انتظام کر دے ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفصیلات اور علم آ چکا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی ذات اور اپنی صفات کے بارے میں متعارف کرایا ہے۔ چنانچہ ہم انہی اسماء و صفات پر اکتفا کریںگے اور اس ذات پاک کی حمد و ثنا انہی اسماء و صفات کے ذریعے کریں گے ۔
جب یہ کہا جائے کہ فلاں بادشاہ سخی ہے، اس کا دربان بھی سخی ہے اور اس کا بچہ بھی سخی ہے، ظاہر ہے کہ سننے والا از خود فرق سمجھ لے گا کہ بادشاہ ،دربان، اور بچے کی سخاوت میں کیا فرق ہو سکتا ہے؟ جبکہ مذکورہ بالا مثال میں مذکورہ تینوں افراد انسان ہیں اور پھر جب یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ بہت سخی ہے تو بلاشبہ تمہیں فورًا معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی سخاوت و عنایت ان کمزور و محتاج بندوں کی طرح تو نہیں ہو سکتی۔
اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے بارے میں یہی ایک اصول ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا علم بندوں کے علم کی طرح نہیں ہو سکتا، اس کی حکمت و دانائی بھی مخلوق کی دانائی کی طرح نہیں ہو سکتی، اسی طرح اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا رحیمانہ برتائو اور کافروں سے انتقام مخلوق کی رحمت و انتقام کی طرح نہیں ہو سکتا۔ ان تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ کا اعلی ترین اور باکمال درجہ ہے اور کسے باشد کوئی بھی اس کی مشابہت نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے:
’’کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں، وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
ہر طرح کی کمی، کوتاہی، نقص یا عیب مخلوق میں ہو سکتے ہیں اور ہر کمال اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے لیے ہے، اور یہ بات صرف اسی کو جچتی اور زیب دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر قرآن حکیم اور سنت رسول اللہ a سے ہمیں خود اپنی ذات کا تعارف کروادیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ سارے اسماء حسنٰی اسی کے لیے ہیں اور صفات کمال کا وہ مالک ہے۔ کسی دوسرے کے لیے قطعًا ممکن نہیں تھا کہ جس تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف کروایا وہ اس سے بہتر تعارف کروا دیتا۔ اب کسی صاحب ایمان کے لیے ممکن نہیں رہا کہ جن جن صفات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو موصوف کیا ہے ان میں کوئی صفت کم کر سکے۔
[ایک انگریز خاتون کا خاوند فضیلۃ الشیخ عبداللہ الحکیمی کے ہاتھوں پر اسلام قبول کر چکا تھا۔ خاتون آکر شیخ سے بحث کرنے لگی۔ اس خاتون نے کہا:’’ میں اس وقت تک اللہ کو نہیں مانتی جب تک لمبائی چوڑائی کی حدود کے ساتھ اس کو دیکھ نہ لوں۔‘‘ ( استغفراللہ واتوب الیہ ) الشیخ نے کہا:’’ یہ بتاؤ تم اپنے خاوند کے ساتھ محبت کرتی ہو؟‘‘ وہ کہنے لگی:’’ ہاں‘‘ فضیلۃ الشیخ نے کہا:’’ میں نہیں مانتا۔‘‘ خاتون نے پوچھا:’’ کیوں’آپ کیوں نہیں مانتے؟‘‘ فضیلۃ الشیخ نے کہا:’’ میں اس وقت تک نہیں مانتا کہ تم واقعتًا اپنے خاوند سے محبت کرتی ہو جب تک کہ میں یہ نہ دیکھ لوں کہ یہ محبت کیسی ہے؟ اس کا وزن کتنا ہے؟ اس کا رنگ کیسا ہے؟ یہ کتنی لمبی اور کتنی چوڑی ہے؟‘‘ خاتون نے کہا:’’ محبت تو موجود ہے، البتہ ہم اس کیفیت نہیں پا سکتے‘‘ فضیلۃ الشیخ نے کہا:’’ اللہ تعالیٰ کی مثال کہیں بلند ہے، ہم اس پر ایمان ضرورلاتے ہیں، لیکن ہمارا علم اس کی حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ زندگی میں کتنی چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ یہ جو ہمیں نیند آتی ہے ہمیں خبر نہیں یہ کیسی ہوتی ہے؟ یہ کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اسی طرح بیداری اور خوشی و مسرت کی حقیقت سے بھی ہم نا واقف ہیں، بلکہ لوگوں کی بڑی اکثریت کو خبر ہی نہیں کہ بجلی کی کیا حقیقت ہے؟ حالانکہ وہ بجلی کو تسلیم کرتے ہیں، اور یہی حال بہت سارے معاملات کا ہے۔‘‘ ]
عقلی و نقلی دلائل سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی مخلوق سے ہر اعتبار سے مختلف ہے۔ اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات بھی مخلوق سے مختلف ہوں۔ تمام مخلوق ناقص صفات رکھتی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کامل و مکمل صفات کے مالک ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے پوری تفصیلات سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ جن صفات کمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اور رسول اللہ a نے سنت میں ذات ربانی کو موصوف کیا ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں، البتہ ان صفات کی حقیقت و کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے، اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
اس کی ذات ’’سمیع ‘‘ ہے اور ’’بصیر‘‘ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا سننا مخلوقات کے سننے کی طرح نہیں ہو سکتا اور اس کا دیکھنا بھی مخلوقات کے دیکھنے کی طرح نہیں ہو سکتا۔ ہم اس کی حقیقت کا علم بھی نہیں پا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات بہت بڑی اور بہت بلند ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عنایت کی ہے۔ اسی عقل کے ذریعے وہ بہت ساری باتوں کو سمجھ لیتا ہے، اسی کے طفیل حق و باطل کی تمیز کرتا ہے، نفع و نقصان پہچانتا ہے اور انسان کی شرعی ذمہ داریاں عقل ہی کی بنیاد پر ہیں۔ جو عقل سے محروم ہو جائے اس کا حساب کتاب نہیں لکھا جاتا ۔ اللہ تعالیٰ نے عقل کو بہت ساری صلاحیتوں سے نوازاہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت تصور عطا کی ہے، اس کے ذریعے وہ بہت ساری چیزوں کو سمجھ لیتا ہے۔ اس قوت تصور کے بل بوتے پر اپنے معاملات کو مرتب کرتا ہے اور مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے۔ لیکن قوت تصور ہے بہت کمزور اور بہت محدود۔ مثلاً کسی شہر کا نقشہ تمہارے سامنے بیان کیا جائے ، تمہیں کچھ چیزیں ضرور سمجھ آ جائیں گی اور ان چیزوں کا ایک تصور بھی تمہارے دماغ میں آ جائے گا ، لیکن جب کھلی آنکھوں سے اس شہر کو دیکھو گے تو محسوس ہو گا کہ جو کچھ تم نے سوچ رکھا تھا یہ اس شہر سے کہیں مختلف ہے۔
مثلاً ایک شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، یہ بات تو تمہیں سمجھ آ گئی کہ کسی آدمی نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے، لیکن تم اپنے تصور سے یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ دراصل دروازے پر کون ہے؟ وہ کتنا لمبا ہے؟ کتنا چوڑا ہے؟ اس کا رنگ کیسا ہے اور اس کا حجم کیا ہے؟ دروازے کی رکاوٹ کے باوجود تمہاری عقل نے یہ تو جان لیا کہ کوئی آدمی دروازے پر ہے اور اس نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے، البتہ دروازے کی اوٹ کی وجہ سے تصور یہ فیصلہ کرنے میں ناکام رہا کہ دروازے پر موجود شخصیت کس قسم کی ہے؟
اللہ تعالیٰ کی مثال تو بڑی عظیم ہے، چنانچہ عقل اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتی ہے، البتہ قوت تصور اس ذات کی حقیقت کو نہیں پا سکتی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں،وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
سارے اچھے نام اللہ کے ہیں، اس کے ننانوے نام ہیں، جو ان ناموں کی حفاظت کر لے جنت میں جائے گا۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے نام ہیں اور یہ بات حدیث سے ثابت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اللہ تعالیٰ کے سارے اچھے نام ہیں، پس اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو۔‘‘
بعض اسماء حسنٰی یہ ہیں:
الواحِد، الأحد، الصَّمد، القیُّوم ، الحالِق، المُصَوِّر، الرَّحمٰن، الرَّحیم، اللَّطیف، الرَّزَّاق، الوَاسِع، العَظِیم، العَزِیز، الحَکِیم، العَلِیم، الحَافِظ، الهادِی، المحیِی، المُمِیتُ، الوَارِث[الواحِد: اکیلا۔ الأحد۔تنہا الصَّمد: بے نیاز۔ القیُّوم :کائنات کو سنبھالنے والا۔ الخالِق:پیدا کرنے والا۔
المُصَوِّر: نقش و صورت بنانے والا۔ الرَّحمٰن: انتہائی رحمت کرنے والا۔ الرَّحیم: مسلسل رحمت کرنے والا۔
اللَّطیف: لطف،نرمی اور مہربانی کرنے والا۔ الرَّزَّاق: رزق رسانی کرنے والا۔ الوَاسِع: فراخی اور دسترس والا۔
العَظِیم: عظمت و بڑائی والا۔ العَزِیز: زبردست و غالب۔ الحَکِیم: سراپاحکمت و دانائی رکھنے والا۔
العَلِیم: ہر چیز کا اچھی طرح علم رکھنے والا۔ الحَافِظ: حفاظت و نگہداشت کرنے والا۔ الھَادِی: راہنمائی اور ہدایت کرنے والا۔
المحیِی: زندگی عطا کرنے والا۔ الممِیت:موت دینے والا۔ الوَارِث: وراثت پانے والا۔]