ایک شخص نے اپنی بی بی کو دو مہینے کے عرصے میں تین طلاق دے دیا ،اس قصور پر کہ بی بی نماز نہیں پڑھتی ہے۔اور اب بعد طلاق کے بی بی بہت عاجزی کرتی ہے کہ ہمارا قصور معاف کرو،ہم نماز پڑھتی ہیں اور میاں بھی چاہتا ہے کہ کوئی صورت اس کے پاس رہنے کی ہو تو ہم رکھتے۔اس صورت میں حضور کے پاس سوال جاتا ہے اور پہلی طلاق سے آج تک دو مہینہ گزرا ہے ازروئے شریعت کے ارقام فرمائیں۔
جس شخص نے اپنی عورت کو دو مہینے کے عرصہ میں تین طلاق دے دیا،اگر پہلی طلاق دے کر بلارجعت دوسری طلاق دے دی،اسی طرح دوسری طلاق دے کر بلا رجعت تیسری طلاق دے دی،توجب تک پہلی طلاق کی عدت نہ گزرے،رجعت کرسکتا ہے ،یعنی طلاق کو واپس لے سکتا ہے اور جب طلاق کوواپس لےلےگا تو وہ عورت اس کی بی بی ہوجائے گی اور وہ اس بی بی کے ساتھ رہ سکتا ہے اور اگر عدت گزر گئی ہوتو اگر دونوں ر اضی ہوں تو پھر دونوں میں جدید نکاح ہوسکتاہے۔صحیح مسلم(1/477چھاپہ دہلی) میں ہے:
"راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ،ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اور عہد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا،
جس عورت کو حیض آتا ہو،اس کی عدت تین حیض ہے:
"وہ عورتیں جنھیں طلاق دی گئی ہے،اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں"
جس عورت کو حیض نہ آتاہو،اس کی عدت تین مہینے ہیں اور جس عورت کو حمل ہو،اس کی عدت وضع حمل ہے۔
کتبہ:محمد عبداللہ(مہرمدرسہ) صح الجواب،واللہ اعلم بالصواب
"اور وہ عورتیں جو تمہاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہوچکی ہیں،اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض نہیں آیا"(كتبہ:محمد عبداللہ)