زید نے اپنی زوجہ ہندہ کو وقت لڑائی کے تین طلاق دیا اور بعد طلاق کے ڈیڑھ مہینے تک ہندہ اپنے شوہر سے الگ رہی،مگر ڈیڑھ ماہ کے بعد زید نے ہندہ کو پھسلا کر اپنی میل جول کرلیا اور ہندہ بسبب ناواقفیت مسئلہ شریعت کے اس کے پاس قریب برس کے رہی اور اب اس کا افشا عام ہوگیا،پس ہندہ بھی اس سے واقف ہوگئی۔اب ازروئے قر آن وحدیث کیا کیا جائے؟
اگر زید نے تین طلاق ایک ساتھ دیا ہے تو قطع نظر اس کے کہ یہ طلاق مبغوض الٰہی ہے،جیسا کہ مشکوۃ (ص:276 مطبوعہ انصاری) میں محمود لبید سے مروی ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا،جس نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے دی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا:" کیا میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جاتاہے؟" حتیٰ کہ ایک آدمی کھڑا ہوکر کہنے لگا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟
حکم ایک ہی طلاق کا رکھتا ہے ،جیسا کہ صحیح مسلم(1/277چھاپہ دہلی) میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ،ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اور عہد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا،تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:لوگ اس معاملے(طلاق) میں ،جس میں انھیں مہلت حاصل تھی،جلدی کرنے لگے ہیں،اگر ہم(ان کی تین طلاقوں کو،تین طلاقیں ہی) ان پر نافذ کردیں(تو بہتر ہے) چنانچہ انھوں نے اس کو نافذ کردیا"
پس اگر ڈیڑھ مہینے میں تین حیض سے اس عورت کو فراغت ہوچکی تھی،تب شوہر اس کا اسے اپنے لے آیا تو بے شک یہ فعل ناجائز ہوا۔اب یہی شکل دونوں کے ملنے کی ہے کہ نکاح کرایا جائے اور اگر قبل تین حیض سے فراغت کرنے کے شوہر اس عورت کو لے آیا،وہ بے شبہ رجعت صحیحہ ہے ۔
ہدایہ (ص:375 مصطفائی) میں ہے:
( قوله والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي ) هذا صريح الرجعة ولا خلاف فيه فقوله راجعتك هذا في الحضرة وقوله راجعت امرأتي في الحضرة والغيبة ثم الرجعة على ضربين سني وبدعي فالسني أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإن راجعها بالقول نحو أن يقول لها راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو مخالف للسنة ، والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد وإن نظر إلى سائر أعضائها بشهوة لا يكون مراجعا .[2]رجوع یہ ہے کہ وہ(رجوع کرنے والا) کہے:میں نے تجھ سے رجوع کیا یا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا۔رجوع کے یہ الفاظ صریح ہیں،ائمہ کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔انھوں نے کہا:(رجوع اس طرح بھی ہوجاتا ہے کہ وہ) اس(اپنی مطلقہ بیوی) سے وطی کرلے یا اسے بوسہ دے دیا شہوت کے ساتھ اسے چھوئے یا شہوت کے ساتھ اس کی شرم گاہ کو دیکھے"