زید نے سفر کا قصد کیا۔ہندہ اس کی بی بی نے کہا کہ سفر میں مجھے ساتھ لے چلو یا طلاق دے دو۔زید نےکہا کہ جب تم نے طلب طلاق کا کیا طلاق ہوگیا۔یہ کہہ کر سفر پر چلا گیا۔بعد چند برس کے ہندہ نے بذریعہ خط طلب خرچ کا کیا کہ یا مجھے خرچ بھیجیں یا طلاق دے دیجئے۔زید نے جواب میں لکھا کہ جس وقت میں نے پہلے سفر کا قصد کیا تھا تو نے اسی طلب طلاق کا کیا تھا،اسی وقت تجھ کوطلاق ہوچکا،پھر دوبارہ طلاق مانگنے اور خرچ بھیجنے کی کیا ضرورت ہے ؟اس صورت میں طلاق واقع ہوا یا نہیں؟اس عورت کا نکاح دوسری جگہ جائز ہے یا نہیں؟
ہندہ کے طلب طلاق کے جواب میں زید کا یہ کہنا کہ"جب تم نے طلب طلاق کا کیا"ایقاع طلاق میں صریح نہیں ہے۔یہ کلام دو مطلب کا متحمل ہے ۔ایک یہ کہ جب تم نے طلب طلاق کا کیا طلاق ہوگیا،یعنی تمہارا طلب طلاق کا کرنا ہی طلاق ہوجاتا ہے،یعنی عورت کے مجرد طلب طلاق سے طلاق واقع ہوجاتا ہے دوسرے یہ کہ جب تم نے طلب طلاق کا کیا طلاق ہوگیا،کیونکہ جب طلب طلاق کا کیا،اسی وقت میں نے تم کو طلاق دے دیا۔اگر زید کا مطلب اس کلام سے احتمال اول ہے تو طلاق نہیں ہوئی،کیونکہ عورت کے مجرد طلب طلاق سے طلاق نہیں ہوتا اور اگرزید کا مطلب احتمال ثانی ہے تو طلاق ہوگیا اور عدت بھی گزر گئی۔اب ہندہ کا دوسرا نکاح جائز ہے۔
بہر کیف زید سے استفسار کیا جائے کہ اس نے اس کلام کو کس مطلب سے کہا تھا؟حسب بیان اس کے عمل کیا جائے اور اگر کہے کہ اب مجھے یاد نہیں رہا کہ میں نے کس مطلب سے کہا تھا تو اس سے دریافت کیا جائے کہ ہندہ کے طلاق طلب کرنے کے وقت تمھیں یہ معلوم تھا کہ عورت کے مجرد طلب طلاق سے طلاق ہوجاتی ہے؟اگر یہ کہے کہ یہ مجھے معلوم نہیں تھا،تو اس صورت میں طلاق ہوجائے گی،کیونکہ اب احتمال اول باقی نہیں رہا،صرف احتمال ثانی متعین ہے۔اگر کہے کہ ہاں یہ مجھے معلوم تھا،مگر اب یاد نہیں رہا کہ میں نے کس مطلب سے کہا تھا یا زید کچھ بیان ہی نہ کرے تو اس صورت میں طلاق نہ ہوگی،کیونکہ زید کا مذکورہ بالا کلام محتمل ہے۔اور جو کلام اس نے سفر سے لکھا ہے ،اس سے بھی کسی مطلب کی تعین نہیں ہوتی ،کیونکہ وہ بھی مثل اس کے محتمل ہے اور ہندہ اس کلام کے پہلے یقیناً زید کی منکوحہ تھی اور اس محتمل کلام کے بعد شک پڑ گیا کہ طلاق ہوا یا نہیں اور یہ شرعی اصول ہے کہ"الیقین لا یزول بالشک"یعنی یقین،شک سے زائل نہیں ہوتا ،تو نکاح ہندہ جو یقینی ہے،اس مشکوک طلاق سے زائل نہیں ہوا۔وہ بدستور زید کی منکوحہ رہی۔