زید کی بی بی نوید شادی میں اپنی بہن و بھائی کے گھر دوسرے موضع گئی اور عرصہ تین مہینے اپنی بہن اور بھائی کے گھر رہی اور بعد اس کے چند بار زید نے اپنے مکان پر چلنے کا تقاضا کیا بی بی زید نے گفتگو اور اور بات کا کیا کہ جس سے رنج زیادہ ہوا۔تب زید نے کہا کہ اب تم جاؤ تو تم کو طلاق ہے۔یہ واقعہ28 شوال حال روز منگل کا ہے ،جس کو آج عرصہ پانچ روز کا ہوتا ہے،پھر اس کی صبح کو،یعنی ر وز بدھ کو زید اپنے مکان آنے کو چاہا،تب بی بی زید کی زید کے گھر آنے پر راضی ہوئی ،مگر زید اب نہیں لاتا ہے کہ بغیر دریافت کسی عالم کے ہم اپنے گھر کو کیونکر لے جائیں؟جو حکم خداورسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو،تحریرفرمائیں۔
زید اگر اپنی بی بی کو اپنے گھر لانا اور رکھنا چاہتا ہے تو گھر لائے،لیکن جب وہ زید کے گھر آجائے گی تو اس پر ایک طلاق پڑ جائے گی،پھر اگر وہ بی بی زید کی مدخولہ ہے تو طلاق پڑ جانے کے بعد عدت کے اندر اس سے رجعت کرلے،یعنی دو معتبر مسلمانوں کے روبرو زبان سے کہہ دے کہ میں جو طلاق اپنی فلانی بی بی کو دی تھی،اس کو واپس کرلیا۔اگر وہ بی بی زید کی مدخولہ نہیں ہے تو طلاق پڑ جائے گی،بعدہ بتراضی طرفین زید کو پھر اس سے جدید نکاح کرنا پڑے گا۔زید کو اختیار ہوگا کہ طلاق پڑجانے کے بعد جب چاہے اس سے نکاح کرلے،اس میں عدت گزرنا شرط نہیں ہے۔
سورہ بقرہ رکوع(28) میں ہے:
"اور ان کے خاوند اس مدت میں انھیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں ،اگر وہ(معاملہ) درست کرنے کاارادہ رکھتے ہوں"
سورہ طلاق رکوع(1) میں ہے:
"پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو،یا اچھےطریقے سے ان سے جدا ہوجاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنالو"
سورہ احزاب رکوع(6) میں ہے:
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو،پھر انھیں طلاق دے دو،اس سے پہلے کہ انھیں ہاتھ لگاؤ،تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں،جسے تم شمار کرو"