زید کی کئی لڑکیاں ہیں اور ایک لڑکا صرف اس لڑکے نے اپنے ماموں بکر کی بیوی کا دودھ پیا ہے اور بکر کی اس بیوی سے کئی لڑکے ہیں تو اس صورت میں بکر کے پسر کی شادی زید کی دختر سے ہو سکتی ہے یا نہیں؟
اس صورت میں بکر کے پسر کی شادی زید کی دختر سے ہو سکتی ہے اس لیے کہ جب زید کی لڑکیوں نے بکر کی بیوی کا دودھ نہیں پیا ہے تو نہ بکر کی بیوی زید کی لڑکیوں کی ماں ہوئی اور نہ بکر کے لڑکے زید کی لڑکیوں کے بھائی ہوئے اور جب بکر کے لڑکے اور زید کی لڑکیوں میں رشتہ رضاعت محقق نہیں ہوا تو بکر کے پسر کی شادی زید کی دختر سے ہو سکنے میں کسی طرح شبہ نہیں ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔کتبہ: محمد عبد اللہ (14/ذی القعدۃ 1330ھ)
صورت مسئولہ میں زید کی لڑکیاں بکر کے پسر کے رضاعی بھائی کی نسبی بہنیں ہوئیں اور رضاعی بھائی کا نسبی بہن سے نکاح کرنا بلاشبہ جائز ہے فقہائے حنفیہ نے بھی اس کی تصریح کی ہے شرح وقایہ میں ہے۔
"وتحل اخت اخيه رضاعا كماتحل نسبا كاخ من الاب لي اخت من امه تحل لاخيه من ابيه"[1](اس کے رضاعی بھائی کی بہن حلال ہے جس طرح نسبی بھائی کی بہن حلال ہے جیسے علاتی بھائی کی ایک اخیافی بہن ہے تو وہ اپنے علاتی بھائی کے لیے حلال ہو گی)
عمدة الرعاية حاشية شرح الوقايةمیں ہے۔
"قوله رضاعا يصح اتصاله بالمضاف اليه وبالمضاف وبكليهما كان يكون لك اخ نسبي له اخت رضاعية فهي حلال عليك وكذا اذا كان لك اخ رضاعي لي اخت نسبية وكذا الاخت الرضاعية للاخ الرضاعي والوجه فيه ان المحرم من الرضاع انما هو مايحرم من النسب ومثل هذه القرابة من النسب قد يكون غير محرمة فلا يحرم مثلها من الرضاع انتهي"(اس کا قول "رضا عاً"تو اس کا تعلق مضاف الیہ "اخیہ"مضاف "اخت "اور مضاف و مضاف الیہ دونوں کے ساتھ ہو سکتا ہے گویا کہ تمھارا ایک نسبی بھائی ہو۔ اس کی ایک نسبی بہن ہو تو تمھارےلیے اس سے نکاح کرنا جائز ہو گا۔ اسی طرح جب تمھاراایک رضاعی بھائی ہو اس کی ایک نسبی بہن ہو اور یہی معاملہ رضاعی بہن کا رضاعی بھائی کے ساتھ ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ رضاعی رشتہ تو صرف وہی حرام ہے جو رشتہ نسب سے حرام ہے اور اس طرح کی قرابت و رشتے داری بعض اوقات حرام نہیں ہوتی تو پھر اس طرح کارضاعی رشتہ بھی حرام نہیں ہو گا)
نیزعمدة الرعاية"میں ہے۔
"قوله:كاخ من الاب صورته ان يكون لك اخ من الاب اي يكون ابوك وابوه واحدا وامك غير امه بان تزوج ابوك امراتين احدهما امك والثانية ام اخيك وكانت لاخيك المذكور اخت من الام بان كان امه متزوجه قبل ابيك بزوج آخر فولدت منه بنتا فهي حلال عليك اتفاقا"انتهي" واللہ تعالیٰ اعلم ۔(اس کا یہ قول "جیسے علاتی بھائی " اس کی صورت یہ ہے کہ تمھارا ایک علاتی بھائی ہو ۔ یعنی تمھارا اور اس کا باپ ایک ہو جب کہ تمھاری ماں اس کی ماں کے سوا ہو۔ جیسے تمھارے باپ نے دو عورتوں سے شادی کی ہو اور ان عورتوں میں سے ایک تمھاری ماں ہو اور دوسری تمھارے بھائی کی ماں ہو۔ تمھارے اس مذکورہ بالا بھائی کی ایک اضیافی بہن ہو۔ یعنی اس کی ماں نے تیرے باپ سے نکاح کرنے سے پہلے کسی اور خاوند سے شادی کی ہو اور اس خاوند سے اس نے ایک بیٹی پیدا کی ہو تو اس لڑکی سے تمھارا نکاح بالااتفاق جائز ہو گا)
[1] ۔شرح الوقابۃ (1/3/53)طبعہ الوراق عمان