سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(295) بہن کا اپنے حقیقی بھائی کو دودھ پلانا

  • 23060
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1040

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسماۃ کلثوم نے اپنے حقیقی بھائی زید کو دودھ پلایا پھر کلثوم نے نکاح ثانی کیا کلثوم کا بیٹا بکر زید کی بیٹی فاطمہ کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے یا نہیں ؟بینوا جروا!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر صورت مسئولہ میں بکر نکاح ثانی سے پیدا ہوا ہے تب تو فاطمہ کا نکاح بکر سے درست ہے اس وجہ سے کہ پہلے اور دوسرے دودھ میں باہم مشارکت نہیں ہے۔

"قال في فتح القدير:" لوتزوجت  برجل وهي ذات لبن لآخر قبله فارضعت صبية فانها ربيبة للثاني وبنت للاول فيحل تزوجها بابناء الثاني"[1]

(فتح القدیر میں ہے اگر اس عورت نے ایک آدمی سے شادی کی اس حال میں کہ وہ اس (شوہر) سےپہلے کسی اور سے دودھ والی تھی پس اس نے ایک بچی کو دودھ پلایا تو وہ دوسرے کی ربیبہ اور پہلے کی بیٹی ہوئی لہٰذا اس لڑکی کا نکاح دوسرے شوہر کے بیٹوں سے حلال اور جائز ہے)

اگر بکر نکاح اول سے پیدا ہوا ہے تو دونوں کا نکاح نادرست ہے کیونکہ بکر زید باہم رضاعی بھائی ہیں اور فاطمہ رضاعی بھتیجی ہے اور رضاعی بھتیجی سے نکاح ناجائز ہے۔

لقوله تعاليٰ:وَبَنَاتُ الأَخِ (اوربھتیجیاں )اي وحرمت عليكم وَبَنَاتُ الأَخِ (النساء 23)(اور بھانجیاں)

ولقوله عليه الصلاة والسلام:(يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب او من الولادة"[2](رواہ الشیخان )
والله اعلم وعلمه اتم واحکم

(دودھ پینے سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے یا ولادت سے حرام ہوتے ہیں)(حررہ محمد ایوب الاسرائیلی عاشر ذی الحجۃ )

جب کلثوم نے زید کو دودھ پلایا تو کلثوم زید کی رضاعی ماں اور زید کلثوم کا رضاعی بیٹا اور فاطمہ کلثوم کی رضاعی پوتی ہوگئی اور بکر(خواہ کلثوم کے نکاح اول سے پیدا ہوا نکاح ثانی سے ہر صورت میں) کلثوم کا بیٹا اور زید کا رضاعی بھائی اور بھتیجا فاطمہ کا رضاعی چچا اور فاطمہ اس کی رضاعی بھتیجی ہوگی اور جب فاطمہ ہر صورت میں بکرکی رضاعی بھتیجی ہوگئی تو بکرکا نکاح فاطمہ سے کبھی درست نہیں ہو سکتا اس لیے کہ جس طرح نسبی بھتیجی محرمات ابدیہ سے ہے اسی طرح رضاعی بھتیجی بھی محرمات ابدیہ سے ہے لقولہ تعالیٰ وَبَنَاتُ الأَخِ النساء 23)

(اور بھتیجیاں تم پر حرام ہیں)

 (( يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب))[3](روا الشیخان )

(دودھ پینے سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں)

فتح القدیر میں جس صبیہ سے زوج ثانی کے ابناء کا نکاح حلال بتایا گیا ہے صحیح ہے اس لیے کہ اس صورت میں صبیہ مذکورہ اور ابنائے زوج ثانی میں کوئی رشتہ یا رضاعی موجود نہیں ہے بخلاف صورت سوال کے کہ اس میں درمیان فاطمہ اور بکر کے رضاعی رشتہ موجود ہے کہ فاطمہ بکر کی رضاعی بھیجتی ہے جو محرمات ابدیہ سے ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔کتبہ : 20/ذی الحجہ 1331ھ)


[1] ۔فتح القدیر لابن الھمام(3/448)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (2502)صحیح مسلم رقم الحدیث (447)

[3] حوالہ بالا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:496

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ