سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(293) خالہ کا اپنے بھانجے کو دودھ پلانا

  • 23058
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 767

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسماۃ حمید ہ مادر محمودہ سابق میں کہتی تھی کہ میں نے حامد کو دودھ پلایا ہے اور اب اس دودھ پلانے سے بحلف انکار کرتی ہے کہ میں نے دودھ نہیں پلایا ہے اور کوئی شہادت مرد یا عورت کی نسبت اس رویت کے دودھ پلانے کی نہیں ہے الاخالہ محمودہ  کی نسبت شوہر حامد یہ کہتا ہے کہ مجھے خالہ مذکورہ نے بحلف یہ کہا تھا کہ حامد کے منہ میں مادر محمودہ نے اپنے پستان کو دیا تھا لیکن خالہ محمودہ سب سےبحلف بیان کرتی ہے کہ ہم نے شوہر حامد سے نہیں کہا تھا کہ پستان منہ میں دیا گیا بلکہ میں بحلف کہتی ہوں کہ میں نے دودھ پلانے یا پستان منہ میں دیتے نہیں دیکھا ہے اس صورت میں شوہر حامد یہ کہتا ہے کہ ایسی شکل میں مجھے دربارہ رضاعت کے شک واقع ہے اور فتاوی عالمگیری کتاب الرضاع (ص358مطبوعہ نول کشور) کی عبارت پر استدلال کرتا ہے کہ عند القضاء حرمت ثابت نہ ہوگئی مگر عند الاحتیاط حرمت ثابت ہوگی اور عبارت یہ ہے۔

"المراة اذا جعلت ثديها في فم الصبي ولا تعرف مص اللبن ففي القضاء لا يثبت الحرمة بالشك وفي الاحتياط  تثبت"

(عورت نے جب اپنا پستان بچے کے منہ میں ڈالا مگر اسے یہ معلوم نہیں کہ دودھ پیا گیا ہے تو قضا کے وقت شک کی بنا پر حرمت ثابت نہ ہوگی ہاں احتیاط کے وقت حرمت ثابت ہوگئی)

حامد و عزیز ان حامد یہ کہتے ہیں کہ ہم کو یقین کا مل ہے کہ مادر محمودہ نے حامد کو ہر گز دودھ نہیں پلایا ہے اور وجہ یقین کی یہ ہے حامد و محمودہ رشتہ داران قریبی ہیں پس ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ احتیاط مذکورہ فتاوی عالمگیری مقتضی اس کی ہے کہ نکاح حامد کا ساتھ دختر محمودہ کے کیا جائے یا نہیں؟ اگر نکاح ہو گیا ہو تو احتیاط مذکورکا کیا مقتضاہے اور اس صورت میں رضاعت متذکرہ میں شک پیدا ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ اگر ہو سکتا ہے تو ترک کرنے والے پر بمقتضائے احتیاط مرقومہ بالا کے کیا حکم ہو سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عبارت منقولہ عالمگیری اس صورت سے متعلق ہے جہاں عورت کا اپنے پستان کو لڑکے کے منہ میں دینا ثابت ہے اور صورت مسئولہ میں اس کا کوئی ثبوت مذکورنہیں ہے صرف شوہر حامد کایہ بیان ہے کہ"خالہ محمودہ نے مجھے بحلف بیان کیا تھا کہ مادر محمودہ نے حامد کے منہ میں اپنے پستان  کو دیا تھا "جس کا خود خالد محمودہ بحلف انکار کرتی اور کتی ہے کہ" میں نے شوہر حامد سے یہ بات نہیں کہی تھی اور نہ میں نے دودھ پلاتے یا منہ میں پستان دیتے دیکھا ہے" پس ایسی حالت میں اگر شوہر حامد کو اپنی یاد پر پورا اطمینان ہو یعنی اس کو خوب یاد ہو کہ خالہ محمودہ نے اس سے بحلف کہا تھا کہ "مادر محمودہ نے حامد کے منہ میں اپنے پستان کو دیا تھا" تو ایسی حالت میں عبارت مذکورہ صورت مسئولہ سے متعلق ہے جس کا مقتضی یہ ہے کہ شوہر حامد کو اپنی دختر کا نکاح جو بطن محمودہ سے ہے حامد سے کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کر چکا ہو تو تفریق واجب ہے اور اگر شوہر حامد کو اپنی یاد پر اطمینان نہ ہو تو عبارت مذکورہ صورت مسئولہ سے متعلق نہیں ہے اس حالت میں مادر محمودہ کا اپنے پستان کو حامد کے منہ میں دینا اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اس سوال کے متعلق ایک اور بات قابل لحاظ ہے وہ یہ کہ سوال میں مادر محمودہ کے دو متناقص بیان درج ہوئے ہیں پہلا بیان تو یہ ہے کہ میں نے حامد کو دودھ پلایا ہے اور دوسرا بیان یہ ہے کہ میں نے دودھ نہیں پلایا ہے پس اگر مادر محمودہ کا بیان سابق ثابت ہے تو وہی بیان معتبر ہو گا اور بیان لاحق اس وجہ سے کہ یہ بیان سابق سے رجوع ہے غیر مسموع و نامعتبر ہو گا اور جب اس صورت میں بیان سابق ہی معتبر ہوا تو حسب حدیث صحیح نکاح حامد کا دختر محمودہ کے ساتھ ناجائز ہوا اور اگر نکاح ہو گیا ہو تو تفریق واجب ہوئی مشکوۃ شریف (ص265)چھاپہ دہلی) میں ہے۔

"وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ فَأَتَتِ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ: وَالَّتِي تَزَوَّجَ بِهَا، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ قَدْ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي، فَأَرْسَلَ إِلَى آلِ أَبِي إِهَابٍ فَسَأَلَهُمْ فَقَالُوا: مَا عَلِمْنَا أَرْضَعْتَ صَاحِبَتُنَا، فَرَكِبَ إِلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِالْمَدِينَةِ فَسَأَلَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ، فَفَارَقَهَا عُقْبَةُ وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ" [1](رواه البخاری) 

(عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ انھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی(ام یحیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  )سے شادی کی تو اس کے پاس ایک عورت نے آکر کہا میں نے عقبہ کو اور اس کو جس سے عقبہ نے شادی کی ہے دودھ پلایا تھا عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس عورت سے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ تونے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ ہی تونے ہمیں اس کی خبردی ہے۔ عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے آل ابی اہاب کی طرف کسی کو روانہ کر کے اس کی تحقیق کی تو انھوں نے کہا ہمیں نہیں معلوم کہ اس نے ہماری صاحبہ (تیری بیوی ام یحییٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ) کو دودھ پلایا ہے چنانچہ عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سواری پر بیٹھے اور مدینے میں پہنچ کر نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   سے دریافت کیا تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا : (تم اس کے ساتھ) کس طرح (تعلق زن و شو قائم کر سکتے ہو؟) جب کہ اس کے بارے میں یہ کہہ دیا گیا ہے؟ لہٰذا عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس کو الگ کردیا اور اس نے ان کے علاوہ کسی اور خاوند سے شادی کر لی)

"عن عقبة بن الحارث رضي الله عنه قال : تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ ، فَقَالَتْ أَرْضَعْتُكُمَا ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : تَزَوَّجْتُ فُلَانَةَ بِنْتَ فُلَانٍ ، فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ ، فَقَالَتْ لِي : إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا ، وَهِيَ كَاذِبَةٌ ، فَأَعْرَضَ عَنِّي فَأَتَيْتُهُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ قُلْتُ : إِنَّهَا كَاذِبَةٌ ، قَالَ : ( كَيْفَ بِهَا وَقَدْ زَعَمَتْ أَنَّهَا قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا دَعْهَا عَنْك ) .[2](والله اعلم بالصواب)

(عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کر لی تو ہمارے پاس ایک سیاہ رنگ کی عورت آئی اس نے کہا میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میں نے فلانہ (ام یحییٰ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ) بنت فلاں (ابو اہاب ) سے شادی کر لی تو ہمارے پاس ایک کالے رنگ کی عورت آئی اور مجھے کہا میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے حالاں کہ وہ جھوٹی ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان سے منہ پھیرلیا ۔ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے چہرے کی طرف آیا اور کہا بے شک وہ جھوٹی ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: (تم) اس کے ساتھ کس طرح (تعلق زن و شوقائم  کر سکتے ہو؟)حالاں کہ اس کا دعوی یہ ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے؟لہٰذا اس کو اپنے (نکاح) سے الگ کردو)کتبہ: محمد عبد اللہ الجواب صحیح کتبہ: محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (2197)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (4816)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:493

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ