سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(292) رضاعت کا ثبوت اور اس کے اثرات

  • 23057
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 983

سوال

(292) رضاعت کا ثبوت اور اس کے اثرات
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 1۔ زید کی زوجہ اپنے حین حیات میں خالد کی زوجہ سے کہا کرتی تھی کہ تمھارا لڑکا میری لڑکی کے ساتھ مل کر دودھ پی لیا کرتا ہے اس اثنا میں زید کی زوجہ مذکورہ نے قضا کی بعد ہ زید نے چاہا کہ اپنی زوجہ متوفی کی لڑکی کے ساتھ خالد کے لڑکے کی نسبت کردے تب خالد کی زوجہ نے کہا کہ میرے لڑکے نے زید کی زوجہ کا دودھ پیا ہے اور خلفا کہتی ہوں کہ ایک   بار خود بھی اپنے لڑکے کو دودھ پیتے ہوئے دیکھا ہے اور بھی دو عورتوں نے بیان کیا ہے کہ ہم لوگوں نے بھی زید کی زوجہ متوفی سے اس کی حیات میں سنا ہے کہ خالد کے لڑکے نے میرا دودھ پیا ہے تو اب صورت مرقومہ بالا میں عورتوں کی گواہیاں معتبر ہوں گی یا نہیں اور خالد و زید کی اولاد میں باہم رضاعت تصور کی جائے گی یا نہیں اور در صورت رضاعت ہونے کے اگر زید اپنی کسی لڑکی کے ساتھ خود خالد مذکور کا نکاح کر دینا چاہے تو ہو سکتا ہے یا نہیں؟

2۔عمرو کی تین بیبیاں ہیں ان میں سے ایک نے بکر کی لڑکی کو دودھ پلایا ہے تو اس صورت میں عمرو کی سب بیبیوں کی اولاد دبکر کی اولاد پر حرام ہو جائے گی یا جس عورت نے دودھ پلایا ہے اسی کی اولاد اور بکر کی اولاد میں رضاعت شمار کی جائے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔اس صورت میں رضاعت ثابت ہے یعنی خالد کے جس لڑکے نے زید کی زوجہ کا دودھ پیا ہے وہ لڑکا زید کا اور زید کی اس زوجہ کا رضاعی بیٹا ہے اور زید کی اولاد کا رضاعی بھائی ہوگیا۔ ثبوت رضاعت کے لیے عورت کا بیان کافی ہے پس خالد کے جس لڑکے نے زید کی زوجہ کا دودھ پیا ہے اس لڑکے میں اور زید کی اولاد میں مناکحت جائز نہیں ہے اور یہ رضاعت خود خالد اور زید یا خالد و زوجہ زید و اولاد زید کی طرف متعدی نہیں ہے پس اگر زید خود خالد کے ساتھ اپنی کسی لڑکی کا نکاح کر دینا چاہے تو ہو سکتا ہے۔

"وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ فَأَتَتِ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ: وَالَّتِي تَزَوَّجَ بِهَا، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ قَدْ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي، فَأَرْسَلَ إِلَى آلِ أَبِي إِهَابٍ فَسَأَلَهُمْ فَقَالُوا: مَا عَلِمْنَا أَرْضَعْتَ صَاحِبَتُنَا، فَرَكِبَ إِلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِالْمَدِينَةِ فَسَأَلَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ، فَفَارَقَهَا عُقْبَةُ وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ" .[1](اخرجه البخاری)

(عقبہ بن حارث سے روایت ہے کہ انھوں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے شادی کر لی تو ایک عورت آئی اس نے کہا میں نے تم دونوں (عقبہ اور اس کی بیوی ام یحییٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) کو دودھ پلایا ہے (یعنی یہ آپس میں بہن بھائی ہیں)انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے مسئلہ دریافت فرمایا (تم اس کے ساتھ) کس طرح (تعلق زن و شوقائم کرسکتےہو) حالانکہ یہ کہہ دیا گیا ہے( تم اس کے رضاعی بھائی ہو اور وہ تمھاری رضاعی بہن ہے؟

عقبہ نے اسے الگ کردیا اور اس نے ان کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرلیا)

"وعن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم قال:(( يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب))

[2](متفق علیہ بلوغ المرام مطبوعہ دہلی ص75واللہ اعلم بالصواب۔

(دودھ پینے سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں)

2۔اس صورت میں عمرو کی سب بیبیوں کی اولاد جو عمر و کے نطفے سے ہے بکر اس اولاد پر حرام ہے جس نے عمرو کی کسی بی بی کا دودھ پیا ہے اسی طرح اگر عمرو کی اس بی بی کی جس نے بکر کی اولاد کو دودھ پلایا ہے اس قسم کی اولاد ہو جو عمرو کے سوا دوسرے شوہر کے نطفے سے ہو وہ بھی بکر کی اس اولاد پر حرام ہوگی کیونکہ اس صورت میں عمرو کی سب بیبیوں کی اولاد مرقومہ بالا بکر کی اس اولاد کی رضاعی بھائی ہیں خواہ بطورعینی یا علاتی یا اخیافی اور بھائی بہن نسبی کسی طرح ہوں خواہ عینی یا علاتی یا اخیافی ان میں مناکحت حرام ہے پس اسی طرح رضاعی بھائی بہن میں بھی خواہ کیسے ہی ہوں مناکحت حرام ہوگی جیسا کہ گزر چکا ہے۔

(( يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب))[3](والله اعلم بالصواب)   

[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(2516)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (2502)صحیح مسلم رقم الحدیث (1447)

[3] ۔حوالہ بالا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:492

محدث فتویٰ

تبصرے