ما قولكم رحمكم الله تعاليٰ :اندریں مسئلہ مثلاً زید نا با لغ ہندہ نابالغہ کے ساتھ بعوض ایک سو پچاس روپیہ دین مہر ے ہوا۔ چند روز کے بعد حالت نابالغی میں زید کا انتقال ہوا لیکن ہندہ کے ساتھ زید کی ہمبستری و مساس و خلوت صحیحہ نہ ہوئی اس صورت میں ہندہ مذکورہ کل دین مہر کی مستحق ہوگی یا نصف کی؟جیسا کہ ان غیر ممسوسہ مطلقہ کے باب میں کلام مجید میں آیا ہے۔
(اور اگر تم انھیں اس سے پہلے طلاق دے دو کہ انھیں ہاتھ لگاؤ اس حال میں کہ تم ان کے لیے کوئی مہر مقرر کر چکے ہو تو تم نے جو مہر مقرر کیا ہے اس کا نصف (لازم ) ہے)
آیا ان دونوں کا حکم ایک ہے یا فرق ہے؟ اگر فرق ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟ مع دلائل تحریر فرمادیں۔
اگر حالت نابالغی کا نکاح شرعاً صحیح ثابت ہو تو صورت مندرجہ سوال میں ہندہ مذکورہ کل دین مہر کی مستحق ہے۔اس کی دلیل حدیث ذیل ہے۔
(رواہ الترمذی و ابو داؤد والنسائی والدارمی مشکوۃ المصابیح باب الصداق فصل 2)
(علقمہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جس نے ایک عورت سے شادی کی ابھی اس نے (مہر وغیرہ ) کچھ مقرر نہ کیا تھا اور نہ اس سے صحبت ہی کی تھی کہ وہ فوت ہو گیا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اسے اس جیسی عورتوں کے مثل مہر ملے گا نہ کم نہ زیادہ اسے عدت بھی گزارنی ہوگی اور اسے (خاوند سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ وراثت بھی ملے گی۔ (یہ سن کر) معقل بن سنان اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں آپ کے فیصلے جیسا فیصلہ کیا تھا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر خوش ہوئے)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ موت کی حالت میں عورت کل دین مہر کی مستحق ہوتی ہے حتیٰ کہ اگر مہر مقرر نہ ہوا ہوتو پورے مہر مثل کی مستحق ہوتی ہے اگر چہ ہم بستری یا خلوت صحیحہ وقوع میں نہ آئی ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
[1] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2116)سنن الترمذی رقم الحدیث (1154)سنن النسائی رقم الحدیث (3354)مشکاۃ المصابیح (2/227)