دلائل ایمان کے مقابلے میں کافروں کا کردار اور ان رویہ کیسا تھا؟
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے دلائل بہت زیادہ ہیں، جتنی اللہ کی مخلوق ہے اتنے ہی اللہ تعالیٰ کی ذات کے دلائل ہیں، اس لیے ہر مخلوق اپنے خالق کے وجود کا اعلان کرتی ہے، لیکن منکرین خدا ان دلائل سے کچھ حاصل نہیں کر سکتے، اس لیے کہ ان کے دل ہی بیمار ہیں، ہدایت کو پا لینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور مریض دلوں کا حال کچھ ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ کافر کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے منہ پھیر لیتا ہے اور باطل دلائل کی بنیاد پر جھگڑا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ بعض اور لوگ ایسے ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔‘‘
کافر کا حال یہ ہوتا ہے کہ بڑے گھمنڈ سے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو جھٹلا دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’انہوں نے سرا سر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے ۔‘‘
اور کافر ہمیشہ حق و باطل کو گڈمڈ کر کے حقیقت واقعہ الجھانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بنائو اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔‘‘
اور کافروں کی ایک پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے راستے سے دوسروں کو روکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ جو لوگ اس حق کو ماننے سے خود انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں وہ یقینًا گمراہی میں حق سے بہت دور نکل گئے ہیں۔‘‘
منکرین حق کی واضح ترین نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ ناقابل تردید دلائل مل جانے کے بعد بھی وہ ایمان کو قبول نہیں کرتے ، بلکہ بلادلیل کفر کو سینے سے لگا لیتے ہیں، آبائو اجداد کی اندھی تقلید کے علاوہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اس رویے کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس قانو ن کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آئو پیغمبر کی طرف تو جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کار کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے (کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیے چلے جائیں گے ) خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستے کی انہیں خبرہی نہ ہو۔‘‘
اہل ایمان کو نعمت ہدایت سے محروم رکھنے کے لیے منکرین حق کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ شکوک و شبہات گھڑے جائیں اور ان کی خوب خوب تشہیر کی جائے۔ جو آدمی اپنے عقیدے سے نا واقف ہو گا وہ کسی نہ کسی درجے میں متاثر ہو کر رہے گا اور ملحدین کے شبہات سے بچ نہ پائے گا ۔
متعدد شبہات میں سے ایک شبہ تو وہ ہے جسے دور حاضر کے ملحدین تکرار کے ساتھ دہرا رہے ہیں، اور یہی بات بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ g سے کہی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’ یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں……‘‘
یہ لوگ سمجھ بوجھ رکھنے والی عقل کو تسلیم کرتے ہیں، ہواکے وجود کو مانتے ہیں اور زمین میں موجود کشش ثقل کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں جو چیز کو زمین کی طرف کھینچ لاتی ہے، اور ریڈیائی لہروں کو تسلیم کرتے ہیں جو آواز دور دور سے کھینچ لاتی ہے، حالانکہ انہوں نے نہ عقل کو دیکھا ہے نہ ہوا کو دیکھا ہے اور نہ ہی کشش ثقل رکھنے والی طاقت کو دیکھا ہے اور نہ ہی ریڈیائی لہروں کو دیکھا ہے، لیکن انہوں نے عقل کے آثار کو ضرور دیکھا ہے جو عقل مند لوگوں کے کاموں سے ظاہر ہو جاتے ہیں اور انہوں نے ہوا کے آثار کو بھی دیکھا ہے جو درختوں کی ٹہنیاں ہلنے سے نظر آ جاتے ہیں ،اور زمین کی کشش ثقل کو اس طرح محسوس کیا ہے کہ تمام چیزیں زمین ہی کی طرف کھنچتی چلی آتی ہیں اور ریڈیائی لہروں کو اس طرح معلوم کیا ہے کہ ریڈیو سیٹ میں اس کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔ ان چیزوں کے نتائج اور اثرات محسوس کرنے کے بعد انہوں نے عقل ،ہوا، کشش ثقل اور ریڈیائی لہروں کو تسلیم اس لیے کر لیا ہے کہ نگاہ ان لطیف چیزوں کو دیکھ نہیں سکتی تھی۔ چنانچہ نتائج کو کھلی آنکھ سے دیکھ لینے کے بعد عقل نے فیصلہ دے دیا کہ ضرور کوئی قوت ہے جو یہ اثرات پیدا کر رہی ہے۔
اگر منکرین حق کافر تکبر کی روش چھوڑ کر اس بات پر غور کرتے کہ ان کی کمزور نگاہ تو اس ہوا کو بھی نہیں دیکھ سکتی جو مسلسل انہیں چھوتی رہتی ہے، اور نہ ہی یہ نگاہ دور کی چیزیں دیکھ سکتی ہے، تو اس کے بعد یقینًا وہ اس نتیجے پر پہنچتے کہ وہ خود اور زمین و آسمان کی حدود میں جو کچھ موجود ہے یہ ایسے اثرات اور کھلی کھلی نشانیاں ہیں جو زبان حال سے اپنے خالق کے وجود کا اعلان کر رہی ہیں۔
میری نگاہ تو ستاروں کو نہیں دیکھ سکتی حالانکہ ستاروں کو آسمان کی زینت قرار دیا گیا ہے، تو یہ کمزور نگاہ اس ذات اقدس کا ادراک کس طرح کر سکتی ہے جو عرش پر مستوی و متمکن ہے۔ اور یہ ساتوں آسمان اللہ رب العزت و الجلال کی کرسی کی عظمت کے مقابلے میں بس اتنے سے ہیں جیسے سات درہموں کو ڈھال میں رکھ دیا گیا ہو اور عرش الہٰی کے مقابلے میں خود کرسی اتنی ہے جیسے وسیع و عریض صحراء میں لوہے کا ایک کڑا ہو۔
اس دنیا میں جب انسان کی نگاہ سورج کو براہ راست نہیں دیکھ سکتی تو اللہ تعالیٰ جل شانہ کو کس طرح دیکھ سکے گی؟ اور اس ہستی کا مقدس مقام تو یہ ہے کہ کوئی چیز اس جیسی ہو ہی نہیں سکتی۔
ایک زمانہ پہلے ایسے ہو چکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدار الٰہی کی درخواست کی تو جو کچھ ہوا اس کو قرآن حکیم نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑا۔‘‘
[مکمل آیت کا ترجمہ یوں ہے:’’ جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ ’’اے رب مجھے اپنا دیدار کرا دیجیے کہ میں تجھے دیکھوں۔‘‘فرمایا: ’’ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا، ہاں ذرا سامنے پہاڑ کی طرف دیکھو،اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا ۔‘‘ چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا او رموسیٰ غش کھا کر گر پڑا، جب ہوش آیا تو بولا: پاک ہے تیری ذات ، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلے ایمان لانے والا میں ہوں۔‘‘]
ڈاکٹرز، انجینئرز اور محقق اساتذہ جن چیزوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر لوگوں کو بتلاتے ہیں
کافروں سمیت تمام لوگ ان پر اعتمار کر کے مان لیتے ہیں ، اس لیے کہ خبر دینے والے سامعین کے نزدیک قابل اعتماد ہوتے ہیں۔ اگر کافر اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ دیں تو وہ بھی اپنے رب کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں،اور یہ اللہ کے بھیجے ہوئے سچے رسولوں کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ یہ انتہائی سچے اور پارسالوگ اپنے رب کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں پوری کائنات میں ان سے زیادہ قابل اطمینان ذریعہ کوئی اور نہیں ہو سکتا اور ان کی سچائی کی دلیل وہ معجزے اور کھلی کھلی نشانیاں ہیں جو انہیں دی گئی ہیں۔