ایک شخص کی ایک بیوہ لڑکی بالغہ اور ذی جمال ہے جس کی نسبت دو تین جگہوں سے آتی رہی اور اس کے والد بھی حسب خواہ اپنے نکاح کرانے کا ارادہ رکھتے تھے ناگاہ اس نسبتی کا ایک شخص اس پر عاشق ہوگیا اور کٹینوں (نائکہ) کے ذریعے سے بلوا کر اس سے نکاح کرنے کے لیے اپنی بی بی کو بلا قصور طلاق دے دیا،بعدہ خفیہ طور پر نکلوا کر غیر بستی کے دو شخصوں کے سامنے نکاح کیا،یہاں تک کہ اس بستی کے کسی شخص کو نہ اس کے ولی کو اس کی خبر ہے اور اس کے ولی لوگ بیزار وناراض ہیں ۔ایسی حالت میں ایسا نکاح صحیح ہوا یا نہیں۔(المستفتی :محمد نزول الحق آرہ۔خیراتی مسجد )
مذکورہ بالا نکاح دو وجہوں سے صحیح نہیں ہے:
1۔خفیہ طور پر کیاگیا،حالانکہ اس کی ممانعت ہے اور نکاح میں اعلان کا حکم ہے۔
"اور نہ چھپی آشنائیں بنانے والے"
شاہ ولی اللہ صاحب مصفی ترجمہ موطا میں فرماتے ہیں:"مترجم می گوید قول خدائے تعالیٰ( مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ) دلالت می کند بتحریم نکاح سر"(مصفی:2/3) مترجم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا فرمان(مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ)خفیہ نکاح کے حرام ہونے پر دلالت کرتا ہے"
رواہ احمد وصححہ الحاکم عن عامر بن عبداللہ بن الزبیر عن ابیہ بلوغ المرام کتاب النکاح)
نیز(خفیہ نکاح) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے(بھی جائز نہیں ہے) :نکاح کا ا علان کرو۔
2۔اس لیے کہ بغیر اجازت ولی کے محض عورت کی خواہش کے موافق کیا گیا،حالانکہ ولی کی اجازت شرط ہے اور عورت بغیر اجازت ولی کے نکاح کی مختار نہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے ولی(کی اجازت) کے بغیر نکاح نہیں ہوتا)
وہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے ،اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے۔۔۔۔۔)
"ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے،نہ عورت خود اپنا نکاح کرے،پس بلاشبہ بدکار عورت ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے"
[1] ۔مسند احمد(4/5) بلوغ المرام(988) صحیح الجامع رقم الحدیث(1952)
[2] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(2085) سنن الترمذی رقم الحدیث(1101)سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(1880)
[3] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(2083) سنن ترمذی رقم الحدیث(1102)
[4] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(1882)