اگر باپ بیٹے میں نااتفاقی ہو اور باپ اپنے بیٹے کی لڑکی،یعنی اپنی پوتی کا عقد اپنے بیٹے کے ہوتےہوئے یعنی بغیر بیٹے کی رضا مندی کے کسی سے نکاح کردے تو یہ نکاح جائز ہوا یا ناجائز؟
یہ نکاح ناجائز ہوا،اس لیے کہ باپ کے رہتے ہوئے دادا ولی نہیں ہے۔پس یہ نکاح بلا اجازت ولی کے ہوا اور جوبلا اجازت ولی کے ہو باطل اور ناجائز ہے صحیح بخاری(3/154مصری) میں ہے:
(باب جس نے کہا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہو تا ۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔"پس تم ان کو مت روکو ۔"اس میں ثیبہ اور باکرہ سب داخل ہیں نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔"اور (اپنی عورتیں ) مشرک مردوں کے نکاح میں نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ۔"نیز اس کا فرمان ہے۔"اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عوتوں کا نکاح کردو۔ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں چار طرح سے نکاح ہوتے تھے ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کی طرف پیش قدمی کر کے اس سے نکاح کرتا۔ پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ رسول بن کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تمام نکاح باطل قراردیے صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (4834)