سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(274) ولی کے بغیر نکاح کا حکم اور دو حدیثوں میں تطبیق

  • 23039
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 882

سوال

(274) ولی کے بغیر نکاح کا حکم اور دو حدیثوں میں تطبیق
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت بالغہ مطلقہ بغیر اذن اپنے والد کے اپنا نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟اگر کرلیا تو جائز ہوگایا نہیں؟قرآن وحدیث سے جو حکم ہو بیان فرمایاجائے اور حدیث:

" أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل"

اور حدیث:

"الْأَيّمُ أَحَقّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيّهَا"

میں کیا صورت جمع کی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کوئی عورت بغیر اذن اپنے ولی کے اپنا نکاح نہیں کرسکتی۔صحیح بخاری(3/154طبع مصر) میں ہے:

باب من قال:لا نكاح الا بولي لقول الله  تعاليٰ فَلا تَعْضُلُوهُنَّ (البقرہ:232) فدخل فيه الشيب‘وكذلك البكر‘وقال: وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وقال: وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ اخبرني عروة بن الزبير ان عائشة زوج النبي صلي الله عليه وسلم اخبرته ان النكاح في الجاهلية كان علي اربعة انحاء فنكاح منها نكاح الناس اليوم يخطب الرجل الي الرجل وليته او ابنته فيسبقها ثم ينكحها...فلما بعث محمد صلي الله عليه وسلم بالحق هدم نكاح الجاهلية كله الانكاح الناس اليوم...عن الحسن قال:((فَلا تَعْضُلُوهُنَّ ))قال حدثني معقل بن يسار انها نزلت فيه قال:زوجت اختا لي من رجل فطلقها حتي اذا انقضت عدتها جاء يخطبها فقلت له: زوجتك‘وفرشتك‘واكرمتك‘فطلقتها ثم جئت تخطبها لا والله لا تعود اليك ابدا‘ وكان رجلا لا باس به وكانت المراة تريد ان ترجع اليه فانزالله هذه الاية ((فَلا تَعْضُلُوهُنَّ)) فقلت: الآن افعل يا رسول الله صلي الله عليه وسلم قال:فزوجها اياه"[1]واللہ تعالیٰ اعلم۔

(باب جس نے کہا کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہو تا ۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔"پس تم ان کو مت روکو ۔"اس میں ثیبہ اور باکرہ سب داخل ہیں نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔"اور (اپنی عورتیں ) مشرک مردوں کے نکاح میں نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ۔"نیز اس کا فرمان ہے۔"اور اپنے میں

سے بے نکاح مردوں اور عوتوں کا نکاح کردو۔ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ بلا شبہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ان کو خبر دی کہ زمانہ جاہلیت میں چار طرح سے نکاح ہوتے تھے ایک صورت تو یہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کی طرف پیش قدمی کر کے اس سے نکاح کرتا۔ پھر جب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  حق کے ساتھ رسول بن کر آئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جاہلیت کے تمام نکاح باطل قراردیے صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔

حدیث:

" أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل"[2]

اور حدیث:

"الْأَيّمُ أَحَقّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيّهَا"[3]

میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ جمع کی ضرورت ہو،اس لیے کہ حدیث اول ونیز آیات ودیگر احادیث مذکورہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی عورت بغیر اذن اپنے ولی کے اپنا نکاح نہیں کرسکتی اور حدیث ثانی سے اس کا خلاف ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی عورت اپنا نکاح بغیر اذن اپنے ولی کے بھی کرسکتی ہے ،بلکہ حدیث ثانی میں صرف اس قدر مذکور ہے کہ ایم عورت اپنے نفس کے ساتھ بہ نسبت اپنے ولی کے زیادہ حق رکھتی ہے مگر اس حدیث میں یہ مذکور نہیں کہ عورت مذکورہ کسی امر میں بہ نسبت اپنے ولی کے زیادہ حق رکھتی ہے؟ پس اس صورت میں اس حدیث سے صرف اس قدر ثابت ہوگا کہ اگر عورت مذکورہ کے اذن اور اس کے ولی کے اذن میں تعارض واقع ہو تو عورت مذکورہ کا اذن ولی کے اذن پر مقدم سمجھا جائے گا،یعنی اگر عورت مذکورہ کا ولی اس کے کسی کفو شخص سے اس کا نکاح کردینا چاہے اور عورت مذکورہ اس نکاح کونا منظور کرےتو ولی عورت مذکورہ کا نکاح اس شخص سے نہیں کرسکتا اور اگر عورت مذکورہ چاہے کہ میرا نکاح فلاں شخص  کفو سے کردیاجائے تو ولی کو اس کا نکاح اس شخص سے کردینا ہوگا اوراگر ولی نا منظور کرے گا اور نامنظوری پر اصرار کرے گا تو ولی مذکورہ ولایت سے معزول ہوجائے گا اور عورت مذکورہ کا کوئی اور ولی جو درجہ ولایت میں ولی مذکور کے بعد ہے،عورت مذکورہ کا نکاح اس شخص سے کردے گا اور اگروہ بھی نامنظور کرے گا اور نا منظوری پر اصرار کرے گا تو وہ بھی معزول ہوجائے گا اور اس کے بعد کے درجے کا ولی عورت مذکورہ کا نکاح اس شخص سے کردے گا اور اگر عورت مذکورہ کے تمام اولیا اسی طرح نامنظور کرتے جائیں گے تو سب کے سب معزول ہوتے چلے جائیں گے اور جب کوئی ولی باقی نہ رہے گا تو آخر میں سلطان اس کا نکاح کردے گا کہ اس صورت میں سلطان ہی اس کا ولی ہے جیسا کہ حدیث اول کےآخرمیں ہے:

"فالسلطان ولي من لا ولي له"[4]

الحاصل حدیث ثانی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورت مذکورہ اپنا نکاح بغیر اذن اپنے ولی کے کرسکتی ہے ،بلکہ جو کچھ ثابت ہوتاہے،وہ صرف اس قدر ہے کہ اذنین کے تعارض کے وقت عورت مذکورہ کا اذن مقدم سمجھا جائے گا،جیسا کہ اوپر مذکور ہوا اور ظاہر ہے کہ اس معنی میں اورحدیث اول کے معنی میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ جمع کی ضرورت ہو۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (4834)

 [2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4834)

[3] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(2083)

[4] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث (2083)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:479

محدث فتویٰ

تبصرے