سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(273) اگر ولی نکاح میں رکاوٹ بنے؟

  • 23038
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 861

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہندہ ( جو ثیبہ ہے) کے والدین اس کا نکاح عمرو سے کرنا چاہتے ہیں ہندہ اس کو منظور نہیں کرتی وہ کہتی ہے کہ میرا نکاح خالد سے کردو والدین اس کو منظور نہیں کرتے اہل محلہ نے و نیز علمائے نے ہندہ کے والدین کو سمجھایا کہ ہندہ کی مرضٰ کے مطابق اس کا نکاح کردو لیکن والدین کسی طرح بھی راضی نہیں ہوتے اور ہندہ بھی اپنی صد پر اڑی ہوئی ہے اور ہندہ نے بھی ہر طرح سے والدین کے رضا کی کوشش کی مگر ناکام رہی ایسی صورت میں اگر ہندہ بلا رضا ئے والدین خالد سے نکاح کرے تو کیا یہ نکاح درست و نافذ ہو گا اور اگر امور نکاح کے انجام دہی کے لیے والدین کے علاوہ کسی شخص کو سر پرست مقرر کرے تو اس کا یہ فعل درست ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں والد ہندہ کو چاہیے کہ ہندہ کا نکاح خالد سے کردے بشرطیکہ اس میں کوئی محذور شرعی (جیسے بے دینی وغیرہ) نہ ہو اور اگر والد ہندہ اس صورت میں ہندہ کا نکاح خالد سے نہ کردے تو وہ ولایت ہندہ سے معزول ہوجائے گا اور اس صورت میں اگر ہندہ بلا رجائے والد دوسرے کے اذن سے جس کا درجہ ولایت والد کے بعد ہو خالد سے نکاح کر لے تو یہ نکاح درست و نافذ ہو گا اور مجرد ہندہ کا کسی شخص کو جو اس کا ولی نہ ہو سر پرست مقرر کرکے اس کے اذن سے نکاح کر لینا جواز نکاح کے لیے کافی نہیں ہے اس لیے کہ یہ نکاح بلا اذن ولی ہے جو نصاًباطل ہے۔مشکوۃ (ص262) میں ہے۔

"عَنْ أبي هريرة رَضيَ الله عَنْهُ أنَ رَسُولَ الله صلى لله عليه وسلم قَال: «لا تُنْكَحُ الأيِّمُ حَتى تستأمر، وَلا تُنْكَحُ البِكْرُ حَتًى تُستأذَن"[1] الحدیث (متفق علیه) 

"نہ نکاح کیا جائے بیوہ کا یہاں تک کہ اس سے حکم لیا جائے اور نہ نکاح کیا جائے باکرہ کا یہاں تک کہ اس سے اذن لیا جائے۔"

" عن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل ، فنكاحها باطل ، فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها ، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له ".[2]الحديث (رواهما الخمسة الاالنسائي)

" عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت کرتے ہیں کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے ،اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے۔۔۔۔۔اور اس حديث میں یہ الفاظ بھی ہیں:اگر ان (اولیا)کا اختلاف ہوتو سلطان وقت ہر اس عورت کا ولی ہے ،جس کا کوئی ولی نہ ہو۔

ایضاً(6/33) میں ہے:

"وفي حديث معقل هذا دليل ان السلطان لا يزوج المراة الا بعد ان يامر وليها بالرجوع عن العضل  فان اجاب فذلك وان اصر زوجها"

"معقل بن یسار کی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ سلطان کسی عورت کا نکاح کرانے سے پہلے اس کے ولی کو حکم دے کہ وہ نکاح سے روکنے والا عمل ترک کردے،اگر وہ بجا آوری کرے تو ٹھیک اور اگر وہ اپنی ضد پر مصر رہے تو سلطان اس کا نکاح کردے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4843) صحیح مسلم رقم الحدیث(1419)

[2] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(2083) سنن الترمذی  رقم الحدیث(1102)  سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(1879)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:478

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ