سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(264) عورت کی مرضی کے بغیر نکاح کرنا

  • 23029
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 767

سوال

(264) عورت کی مرضی کے بغیر نکاح کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

باکرہ بالغہ کا نکاح بغیر موجودگی اور بغیر رضا مندی باپ ہندہ کے جوبارہ کوس اپنے علاقہ پر تھا برضا مندی اور ہندہ وبسکوت خود ہندہ وقت اجازت غیر ولی کے ہوگیا۔باپ ہندہ کا جو ولی ہے،پہلے بھی اس نکاح سے راضی نہیں تھا اور اب بھی نہیں۔لہذا ایسا نکاح جووقوع میں آیاہو،وہ عنداللہ وعندالرسول جائز اور صحیح نکاح ہے یا باطل اور فاسدقابل فسخ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسا نکاح جائز نہیں ہے اس لیے کہ جو نکاح عورت کا بلااذن اس کے ولی کے ہو،جائز اور صحیح نہیں ہے،بلکہ باطل اور ناجائز ہے اور جبکہ ایسا نکاح صحیح نہیں ہے،بلکہ باطل وناجائز ہے تو اس کا فسخ کیسا؟فسخ تو اُس چیز کا ہوتا ہے جو موجود اور ثابت ہو اور جب ایسا نکاح شرعاً  ثابت  وموجود ہی نہیں تو فسخ کی کیا صورت ہے؟ہاں ہندہ میں اور اس شخص میں جس کے ساتھ ہندہ کا نکاح کیاگیا ہے،تفریق واجب ہے۔مشکوۃ شریف(ص:262چھاپہ دہلی) میں ہے:

عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل ، فنكاحها باطل ،[1](رواہ ترمذی،وابوداود)

 حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہےکہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے ،اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے۔۔۔۔۔)

وقد ذهب الي هذا علي رضي الله عنه وعمر رضي الله عنه وابن عباس رضي الله عنه وابن عمر رضي الله عنه وابن مسعود رضي الله عنه وابو هريرة رضي الله عنه وعائشه رضي الله عنها والحسن البصري رحمةالله عليه وابن المسيب رحمةالله عليه وابن شبرمة وابن ابي ليليٰ رحمةالله عليه والعترة واحمد رحمةالله عليه واسحاق رحمةالله عليه والشافعي رحمةالله عليه وجمهور اهل العلم فقالوا: لا يصح العقد بدون ولي وقال  ابن المنذر:انه لا يعرف عن احد من الصحابة خلاف ذلك [2]

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کا یہ فرمان: "ولی(کی اجازت) کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا،اس فرمان میں موجود نفی یاتو ذات شرعیہ کی نفی ہے کیوں کہ ذات موجودہ یعنی عقد کی صورت ولی کے بغیر شرعی نص ہے،یا اس نفی کا تعلق صحت کےساتھ ہے۔جو ذات کی طرف اقرب المجازین ہے،تو اس بنا پر ولی کے بغیر نکاح باطل ہوگا،جیسا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی مذکورہ بالا روایت میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔اور جس طرح ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی مذکورہ حدیث دلالت کرتی ہے،کیوں کہ نہی فساد پر دلالت کرتی ہے اور فساد بطلان کے مترادف ہے۔چنانچہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ،حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ،ابن المسیب رحمۃ اللہ علیہ  ،ابن شبرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،ابن ابی لیلیٰ رحمۃ اللہ علیہ  ،عترہ،احمد رحمۃ اللہ علیہ : ،اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،اور جمہور اہل علم  رحمۃ اللہ علیہ  اسی طرف گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ولی کے بغیر عقد (نکاح) صحیح اور درست نہیں ہے۔ابن المنذر  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی سے اس کے خلاف معروف ومعلوم نہیں ہے۔


[1] ۔مسنداحمد(6/47( سنن الدارمی(2/185)

[2] ۔نیل الاوطار(6/178)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:466

محدث فتویٰ

تبصرے