سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(262) دادی کی ولایت

  • 23027
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-30
  • مشاہدات : 844

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر دادا اپنی پوتی نابالغہ کا عقد اپنے لڑکے کے ہوتے ہوئے کسی سے کردے اور بعد بلوغ کسی وجہ سے پوتی نے نکاح مذکورہ کو فسخ کردیا اور شوہر کے گھر جانے سے منکر ہوئی تو نکاح مذکور فسخ ہوا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح مذکور اگر بلا اجازت لڑکی کے باپ کے ہوا ہے تو یہ نکاح درست  ہی نہیں ہوا اور جب نکاح مذکور درست ہی نہیں ہوا تو اس نکاح کے فسخ کی بھی حاجت نہیں،اس لیے کہ باپ کی موجودگی میں دادا ولی نہیں ہوسکتا اور  جب دادا ولی نہیں ہوسکتا تو یہ نکاح بلا اجازت ولی کے ہوا اور نکاح جو بلا اجازت ولی کے ہو باطل اور نادرست ہے۔صحیح بخاری(3/153طبع مصری) میں ہے:

"أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ النِّكَاحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوْ ابْنَتَهُ فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا وَنِكَاحٌ آخَرُ كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا أَرْسِلِي إِلَى فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلَا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ وَنِكَاحٌ آخَرُ يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ مَا دُونَ الْعَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ وَمَرَّ عَلَيْهَا لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا تَقُولُ لَهُمْ قَدْ عَرَفْتُمْ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ فَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلَانُ تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِهِ فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَمْتَنِعَ بِهِ الرَّجُلُ وَنِكَاحُ الرَّابِعِ يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ تَكُونُ عَلَمًا فَمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاهُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا وَدَعَوْا لَهُمْ الْقَافَةَ ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ فَالْتَاطَ بِهِ وَدُعِيَ ابْنَهُ لَا يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِكَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ "[1]

"بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ان کو خبر دی کہ زمانہ جاہلیت  میں چار طرح سے نکاح ہوتے تھے:ایک صورت تو یہی تھی،جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں۔ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی زیر  پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کاپیغام بھیجتا اور اس کی طرف پیش قدمی کرکے اس سے نکاح کرتا۔۔۔پھر جب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  حق کے ساتھ رسول بن کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جاہلیت کے تمام نکاح باطل قرار دیے۔صرف اس نکاح کوباقی رکھا، جس کاآج کل رواج ہے۔۔۔

مشکواۃ شریف(ص:161) میں ہے:

"وعن سليمان بن موسيٰ عن الزهري عن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل ، فنكاحها باطل ،[2]

(رواہ احمد۔والترمذی وابوداود وابن ماجہ والدارمی)

 حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہےکہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے ،اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے۔۔۔۔۔)

"وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :"لا تزوج المرأة المرأة ولا تزوج المرأة نفسها فإن الزانية هي التي تزوج نفسها"[3](رواہ  ابن ماجه والدارقطنی)

"ابوہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے،نہ عورت خود اپنا نکاح کرے،پس بلاشبہ بدکار عورت ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے"

ہدایہ کے"باب الاولیاء والاکفاء" میں ہے:

ويجوز نكاح الصغير والصغيرة اذا زوجهما الولي...الخ[4]

صغیر اور صغیرہ کا نکاح جائز ہے ،جب ان کے ولی ان کا نکاح کریں۔۔۔الخ درخ مختار کے باب الولی میں ہے:

"وهو اي الولي شرط صحة نكاح صغير"[5]

اور وہ یعنی ولی(کی اجازت) صغیر کے نکاح کے صحیح ہونے کی شرط ہے۔اور "رد المختار" میں ہے:

"(قوله صغير الخ) الموصوف محذوف اي شخص صغير الخ فيشمل الذكر والانثي ...الخ والله اعلم بالصواب

اس كاقول:"صغير" يہاں پر موصوف مخذوف ہے یعنی:"شخص صغیر" لہذا یہ مذکر ومونث دونوں کو شامل ہے۔(کتبہ:محمد عبداللہ(مہر مدرسہ)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4834)

[2] ۔مسنداحمد(6/47( سنن الدارمی(2/185)

[3] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(1882)

[4] ۔الھدایۃ(1/198)

[5] ۔رد المختار مع الدر المختار(3/55)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:463

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ