ایک بیوہ عورت ہندہ ہے اور بالغہ ہے اس کا باپ مرگیاہے اس کے لیے بھائی اور ماموں موجود ہیں۔مسماۃ ہندہ اور اس کی ماں حنفی المذہب ہیں۔ایک شخص اہل حدیث نے ہندہ سے نکاح کرنے کا پیغام اس کے بھائی کے یہاں بھیجا۔مسماۃ ہندہ کو اس شخص اہل حدیث سے نکاح کرنا منظور ہوا اور ہرطرح راضی ہوئی،کیونکہ وہ شخص اہل حدیث بہت لائق اور صالح ودیندار ہے اور ہندہ کی ماں کو بھی اس شخص سے نکاح کردینا منظور وپسند ہوا،مگر ہندہ کے بھائی نے منظور نہیں کیا۔اس درمیان میں ہندہ کو خبر لگی کہ اس کا بھائی اس کا نکاح ایک دوسرے شخص سے کرے گا،جو بے نمازی ہے،چونکہ ہندہ کو اس دوسرے شخص سے نکاح کرنا کسی طرح منظور نہ تھا،اس وجہ سے بہت گھبرائی کہ میرا نکاح کہیں اس دوسرے شخص سے نہ کردیا جائے اور بعجلت تمام بلا اجازت وبلا اطلاع اپنے بھائی کے اس اہل حدیث شخص سے اپنا نکاح کرلیا اور اہل حدیث نے بھی ا س خیال سے کہ نکاح ہوجانے کے بعد اس کا بھائی اجازت دے دے گا،نکاح کرلیا۔جب نکاح کی خبر ہندہ کے بھائی کولگی تو وہ ہندہ سے بہت ناخوش ہوا اور اب وہ کسی طرح سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ جو چاہے کرے ،ہم کبھی اجازت نہ دیں گے اور نہ کسی طرح اس کی اجازت دینے کی امید معلوم ہوئی۔
اب ہندہ سخت مصیبت میں پڑگئی کہ نہ اس کا بھائی نکاح کی اجازت دیتا ہے اور نہ وہ اہل حدیث اس کو اپنی منکوحہ سمجھ کر رکھ سکتا ہے اور نہ اس سے معاملہ زن وشو کاکرسکتاہے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ یہ نکاح حدیث کی رو سے صحیح نہیں ہوا۔پس سوال یہ ہے کہ ازروئے قرآن وحدیث کے ایسی صورت میں ہندہ کی گلوخلاصی کی کیا صورت ہے؟
ایسی صورت میں ہندہ حاکم سے درخواست کرے کہ میں فلاں شخص سے اپنا نکاح کرنا چاہتی ہوں،حاکم میرے بھائی کو حکم دے کہ وہ میرا نکاح اس شخص سے کردے اور اگر میرا بھائی میرا نکاح کردینا اس شخص سے منظور نہ کرے تو (بشرط یہ کہ ہندہ کا اور کوئی ولی نہ ہو) ایسی حالت میں حاکم خود ولی ہے اپنی ولایت سے میرا نکاح اس شخص سے کردے یا اپنی طرف سے کسی شخص کو حکم دے دے کہ وہ شخص میرا نکاح اس شخص سے کردے۔نیل الاوطار(6/26) میں ہے:
"فاذا لم يكن ثم ولي او كان موجوداوعضل انتقل الامر الي السلطان لانه ولي من لا ولي له""پس جب ولی نہ ہویا ولی تو ہو،لیکن وہ اس کو نکاح سے روکے تو امر ولایت سلطان کی طرف منتقل ہوجائے گا۔کیوں کہ ولی نہ ہونے کی صورت میں وہ ولی ہے۔
ایضاً(6/33) میں ہے:
"وفي حديث معقل هذا دليل ان السلطان لا يزوج المراة الا بعد ان يامر وليها بالرجوع عن العضل فان اجاب فذلك وان اصر زوجها""معقل بن یسار کی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ سلطان کسی عورت کا نکاح کرانے سے پہلے اس کے ولی کو حکم دے کہ وہ نکاح سے روکنے والا عمل ترک کردے،اگر وہ بجا آوری کرے تو ٹھیک اور اگر وہ اپنی ضد پر مصر رہے تو سلطان اس کا نکاح کردے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔