سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(257) نکاح میں عورت کی رضا مندی

  • 23022
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 857

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید فضولی نے ہندہ بالغہ باکرہ کا نکاح خالد سے بلاتعین دو گواہ باجازت باپ ہندہ کے بعوض مبلغ اکیس ہزار روپیہ کے ایک جماعت عام میں کردیا۔زید نے ہندہ سے نہ خود قبل نکاح اجازت لی تھی نہ بعد نکاح اطلاع دی،مگر ہندہ کو قبل سے خبر تھی کہ آج میرا نکاح ہے اور جب دوسرے اجنبی لوگوں نے ہندہ کو نکاح کی خبر دی تو ہندہ چپ رہی اور انکار نہیں کیا اور خلوت صحیحہ بھی ہوئی،ایسی صورت میں نکاح ہوگیا یا تجدید نکاح کی ضرورت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں کتب معتبرہ فقہ حنفی کے موافق نکاح ہوگیا،تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہندہ سے صاف لفظوں میں منظوری نکاح کا اقرار کرالینا ضروری ہے،اس لیے کہ گو اس صورت میں ہندہ کامجرد سکوت نکاح ہوجانے کے لیے کافی نہیں ہے،لیکن اُس کا یہ سکوت اس کے ایک ایسے فعل کے ساتھ پایاگیا،جو اس کی منظوری نکاح پر دال ہے اور وہ اس کا رضا مند ہونا ہے خلوت صحیحہ پر اور ایسا سکوت نکاح ہوجانے کے لیے کافی ہے ۔در مختار میں ہے:

"فان استاذنهاغير الاقرب‘كاجنبي اوولي بعيدفلاعبرة لسكوتها‘بل لا بد من القول كالشيب البالغة لا فرق بينهما الا في السكوت ‘لان رضاهما يكون بالدلالة كما ذكره بقوله:او ما هو في معناه من فعل يدل علي الرضا كطلب مهرها ونفقتها وتمكينها من الوطي ودخوله بها برضاها ظهرية وقبول التهنية والضحك سرورا ونحو ذلك"[1]

پھر اگر قریبی رشتہ دار کے علاوہ کوئی اس(عورت) سے نکاح کی اجازت طلب کرے،جیسے اجنبی آدمی یا دور کا ولی،تو اس کے سکوت کا اعتبار نہیں ہوگا،بلکہ ثیبہ بالغہ کی طرح اس کا بول کر اجازت دینا ضروری ہے،ان دونوں کے درمیان صرف سکوت ہی کافرق  ہے،کیوں کہ ان کی رضا دلالت کے ذریعے ہی معتبر ہوگی،جیسے انھوں نے اپنے اس قول کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ"یا جو اس کے معنی میں ہو"یعنی عورت کا کوئی ایسا کام کرنا جو اس کی رجا مندی پر دلالت کرتا ہو،جیسے اس کا اپنا مہر اور خرچہ طلب کرنا،مرد کو وطی کرنے کی اجازت دینا،یا مبارک باد کو قبول کرنا اور خوشی سے ہنس دینا وغیرہ۔

"رد المختار"(2/301مصری) میں ہے:

"لانه اذا ثبت الرضا بالقول‘يثبت بالتمكين بالوطي بالاوليٰ لانه ادل علي الرضا"اه

"جب اس کے بول کر اجازت دینے سے اس کی ر ضا مندی ثابت ہوجاتی ہے تو مرد کواپنے اوپر وطی کی قدرت دینے سے تویہ بالاولیٰ ثابت ہوتی ہے کیوں کہ یہ اس کی رضا پر زیادہ دلالت کرنے والی ہے"

فتح القدیر(2/48) نولشکوری میں ہے:

"بل رضاها يكون اما به اي القول كنعم ورضيت بارك الله لنا‘واحسنت‘اوبالدلالة كطلب المهر اوالنفقة او تمكينها من الوطي او قبول التهنية او الضحك سرورا انتهي"

بلکہ اس کی رضا یا توقول سے ثابت ہوگی،جیسے وہ یہ کہے:ہاں یا میں راضی ہوں یاکہے:اللہ ہمیں برکت عطا کرے اور تم نے(میرے نکاح کا) اچھا فیصلہ کیا ،یا یہ رضا دلالت سے ثابت ہوگی،جیسے عورت کا مہر یا خرچہ طلب کرنا یا مرد کواپنے اوپر وطی کی قدرت عطا کرنا یامبارک قبول کرنا یا خوشی سے ہنسنا"

صورت مسئولہ میں خلوت صحیحہ سے بھی جو رضا مندی پائی گئی ہے۔کتب معتبرہ حنفی کے موافق نکاح ہوگیا۔  فتاویٰ ظہیریہ اور فتاویٰ بزازیہ میں اس کی تصریح موجود ہے۔شامی(2/301 مصری) میں ہے:

وقوله:ودخوله بها الخ هذا مكرر والظاهر انه تحريف والاصل‘وخلوته بها فان الذي في البحر عن الظهيرية ولو خلا بها   برضاها هل يكون اجازة؟لا رواية لهذا المسالة وعندي ان هذا اجازة وفي البزازية الظاهر انه اجازة"

اس کا یہ قول:"،مرد کا اس پر دخول۔۔۔الخ" یہ تکرار ہے جو بظاہر  تحریف ہے۔اس میں اصل لفظ مرد کا اس عورت سے خلوت اختیار کرنا ہے۔بحر میں جو ظہیر یہ سے مروی ہے وہ یہ ہے:اگر وہ مرد اس عورت کی رضا سے اس کے ساتھ خلوت کرے تو کیا یہ عورت کی طرف سے اجازت شمار ہوگی؟نہیں اس مسئلے میں ایک روایت مروی نہیں ہے۔لیکن میرے نزدیک یہ اجازت ہے۔بزازیہ میں ہے کہ بظاہر یہ اجازت ہی معلوم ہوتی ہے۔

اور بھی اگر بالفرض اس خاص جزئی(خلوت صحیحہ برضا) کی تصریح موجود نہ بھی ہوتو بھی اس وجہ سے کہ یہ اصلی کلی"فعل يدل علی الرضا"کے  تحت میں داخل ہے اور جزئی من جزئیات ہے،اس نکاح کے ہوجانے میں اشتباہ نہیں ہونا چاہیے۔کتبہ۔محمدعبداللہ الجواب صحیح حررہ الحقیر حسین بن محمد الانصاری الیمانی عفا للہ عنہ آمین المجیب مصیب عندی واللہ اعلم  بالصواب ابومحمد ابراہیم غفرلہ والوالدیہ۔


[1] ۔الدر المختار(3/62،63)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:455

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ