سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(256) بدعتی اور مشرک خاوند کی موحد بیوی کیا کرے ؟

  • 23021
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 842

سوال

(256) بدعتی اور مشرک خاوند کی موحد بیوی کیا کرے ؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہندہ موحدہ ہے اور شوہر اس کا فاسق اور فاجر ہے علاوہ اس کے بدعتی اور مشرک ہو گیا ہے پس ہندہ کو طلاق دلوائی جائے یا کیا کیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر وہ کلمہ تو حید لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کا قائل ہے اور اپنے کو زمر ہ مومنین میں گنتا ہے تو نکاح فسخ نہیں ہو گا اگر چہ کبائر یا ایسے فعل شیعہ کا مرتکب ہو جس کو علمائے مدققین شرک بتاتے ہوں اس کا حساب خدا کے یہاں ہو گا چنانچہ شرح مواقف (ص726نول کشوری ) میں ہے۔

"المقصد الخامس في أن المخالف للحق من أهل القبلة هل يكفر أم لا؟ جمهور المتكلمين والفقهاء على أنه لا يكفر أحدٌ من أهل القبلة"

(پانچواں مقصد اس بارے میں ہے کہ کیا اہل حق سے مخالفت رکھنے والے کو کافر کہا جائے گا یا نہیں ؟جمہور  متکلمین اور فقہا اس موقف پر ہیں کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔الخ)مسند امام اعظم للحصفکی مع شرح ملاعلی قاری (ص195،196)میں ہے ۔

وبه اي بسند ابي حنيفه عن عبدالكريم بن ابي المخارق عن طاوس قال جاء رجل الي ابن عمر فساله فقال يا ابا عبدالرحمان ارايت الذين يكسرون  اغلاقنا اي اقفالنا ويفتحون ابو ابنا وينقبون بيوتنا ويغيرون علي امتعتنا اكفروا به قال:لا قال اي الرجل السائل:ارايت هولاء الذين يتاولون علينا اي من الخوارج والبغاة ويسفكون دماءنا اي يرقبو نها والمعني يبيحون قتلنا بتاويلات فاسدة وآراء كاسدة اكفروا به قال:لااي لانهم اخطاؤا في اجتهادهم ووقعوا في خلاف مرادهم فتوهموا انا نستحق القتل لما صدر عنا من التقصير في الدين علي زعمهم والحاصل  انهم وغيرهم لم يكفروا حتي يجعلوا مع الله شئيا اي شريكا وفي معناه كل ما يوجب كفرا قال طاوس وانا انظر الي اصبع ابن عمر وهو يحركها اشاره الي التوحيد ومقام التفريد‘ويقول سنة رسول الله صلي الله عليه وسلم اي هذا شريعته وطريقته وهذا الحديث وان كان بظاهره موقوفا لكن رواه جماعة آخرون فرفعوة عن رسول الله صلي الله عليه وسلم" [1]

(اور اس کے ساتھ یعنی ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی سند کے ساتھ عبد الکریم بن ابی المخارق سے مروی ہے انھوں نے طاؤس سے روایت کیا ہے انھوں نے کہا ہے ایک آدمی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس آیا اور سوال کرتے ہوئے کہا ۔اے ابو عبدالرحمٰن !آپ کا کیا خیال ہے جو ہمارے تالے تو ڑتے ہیں ہمارے دروازے کھولتے ہیں اور ہمارا سامان لوٹ لیتے ہیں کیا وہ اس کے ساتھ کافر ہو جاتے ہیں؟انھوں نے جواب دیا نہیں ،پھر اس سائل نے یہ دریافت کیا آپ کا ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہمارے خلاف تاویلیں کرتے ہیں یعنی خارجی لوگ اور باغی گروہ اور ہمارے خون بہاتے ہیں یعنی وہ خون بہانے کے منتظر رہتے ہیں معنی یہ ہے کہ وہ فاسد تاویلوں اور کاسد آراکے ساتھ ہمارے قتل کو جائز سمجھتے ہیں کیا وہ اس وجہ سے کافر ہو جائیں گے؟انھوں نے کہا: نہیں کیونکہ انھوں نے اجتہادی غلطی کی ہے اور وہ اپنی مراد کے سلسلے میں اختلاف میں واقع سہوگئے ہیں چنانچہ وہ اس وہم کا شکار ہو گئے ہیں کہ ہم قتل کے مستحق ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے گمان کے مطابق ہم سے دین کے معاملے میں کو تا ئی سر زدہوئی ہے مختصر یہ کہ انھوں نے اور دیگر لوگوں نے کفر نہیں کیا ہے حتی کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک بنائیں یا اس جیسا کوئی کام کریں جو کفر کو واجب کرتا ہو۔ طاؤس  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی انگلی کی طرف  دیکھ رہا تھا اور وہ توحید اور مقام تفرید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس  کو  حر کت دے رہے تھے اور کہتے تھے:رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی سنت،یعنی یہ ان کی شریعت اور طریقہ ہے ۔یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے،لیکن اسے ایک اور جماعت نے  روایت کیا ہے پس اسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   تک مرفوع بیان کیا ہے۔


[1] ۔الدرالمختار (3/63)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:453

محدث فتویٰ

تبصرے