سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(254) مفقود الخبر شوہر کا حکم

  • 23019
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-21
  • مشاہدات : 815

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسماۃ ہندہ کا نکاح ورثا ے ہندہ نے مسمی زیدسے کردیا بعد گزرنے دو ماہ نکاح کے مسمی زید مفقود الخبر ہو گیا جس کو عرصہ دس برس کا گزر گیا۔ ورثاے ہندہ نے مسمی زید کو بہت تلاش کیا کچھ پتا نہیں ملتا اور مسماۃ ہندہ جوان عورت ہے اس کے گھر کی کوئی صورت نہیں ہے اور ورثا ئےہندہ حنفی المذہب ہیں دوسرے شخص سے نکاح ازروئے مذہب امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے درست ہو گا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے شک اگر ازروئے مذہب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے مسماۃ ہندہ کا نکاح کرایا جائے تو ازروئے مذۃب حنفی کے درست ہو گا کیونکہ یہاں ضرورت ہے اور حاکم مالکی بھی نہیں ہیں جس کے یہاں مقدمہ لے جائیں ایسی حالت میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے مذہب پر فتوی دینا حنفی مذہب میں جائز ہے جیسا کہ جئب کسی عورت کو تین دن حیض اگر موقوف ہو جائے تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک اس کی عدت تین حیض ہے چاہے جتنے دن اس میں گزریں اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک نو مہینے گزرنے سے اس کی عدت پوری ہو جاتی ہے مگر فتوی حنفی مذہب میں ایسی صورت میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے مذہب پر ہے۔"ردالمختار "میں ہے۔

"ذكر ابن وهبان في منظومته انه لو افتي بقول مالك في موضع الضرورة يجوز واعترضه شارحها ابن الشحنه بانه لا ضرورة للحنفي الي ذلك لان ذلك خلاف مذهبنا فحذفه اي حذف قوله خلافا لمالك اوليٰ وقال في الدر المنتقي ليس باولي لقول القهستاني لو افتي به في موضع الضرورة لا باس به علي ماظن انتهي
قلت:ونظير هذه المسئلة عدة ممتدة الطهر التي بلغت بروية الدم ثلاثه ايام امتد طهرها فانها تبقي في العدة الي ان تحيض ثلاث حيض وعند مالك تنقضي عدتها بتسعة اشهر وقد قال في البزازية الفتوي في زماننا علي قول مالك وقال الزاهدي كان بعض اصحابنا يفتون به للضرورة واعترضه في النهر وغيره بانه لا داعي الي الافتاء بمذهب الغير لامكان الترافع الي حاكم مالكي يحكم بمذهبه وعلي ذلك مشي ابن وهبان في منظومة هناك لكن قدمنا ان الكلام عند  تحقق الضرورة حيث لم يوجد حاكم مالكي "

(ردالمختار باب المفقود:٢/٤٥٦)

(ابن وہبان نے اپنے منظومہ میں ذکر کیا ہے کہ اگر وہ (اقاضی و مفتی وغیرہ ) بہ وقت ضرورت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے قول کے مطابق فتوی دے تو یہ جائز ہو گا ابن الشحنہ اس کے شارح نے اس پر اعتراض کیا کہ حنفی کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ ہمارے مذہب کے خلاف ہے لہٰذا اس کو حذف کرنا یعنی اس کے اس قول"خلافالمالک"کو حذف کرنا اولیٰ ہے دارالمثقی کے مولف نے کہا: قبستانی کے مندرجہ ذیل قول کی وجہ سے یہ اولیٰ نہیں ہے اگر وہ ضرورت کے وقت اس کے مطابق فتوی دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ اس کا یہ گمان ہے۔

میں کہتا ہوں اس مسئلے کی نظیر ایسی عورت کی علت ہے جس کا طہر لمبا ہوجائے جو تین دن خون حیض دیکھ کر بالغ ہو (پھر اس کا حیض موقوف ہو جائے اور) اس کا طہر لمبا ہوجائے تو وہ عورت (امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک) تین حیض آنے تک عدت میں ہی رہے گی جب کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک نو ماہ گزرنے سے اس کی عدت پوری ہوجائے گی البزازیہ کے مصنف نے کہا ہے ہمارے اس دور میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے قول کے مطابق فتوی دیا جا تا ہے اور زاہدی نے کہا ہمارے بعض اصحاب بوقت ضرورت اس کے مطابق فتوی دیتے تھے النہروغیرہ میں اس پر اعتراض کیا ہے کسی دوسرے کے مذہب کے مطابق فتوی دینے کا کوئی سبب نہیں ہے کیوں کہ یہاں پر اس بات کا امکان موجود ہے کہ حاکم مالکی کے پاس مقدمہ لے جایا جائے اور وہ اپنے مذہب کے مطابق فیصلہ کرے اسی بنا پر ابن وہبان نے اپنی منظومہ میں یہ موقف اختیار کیا ہے لیکن ہم پہلے یہ عرض کر چکے ہیں کہ ہیں یہ اس صورت کے متعلق بات ہے جب ضرورت ثابت ہو جائے اور حاکم مالکی میسر نہ ہو)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:449

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ