ایک عورت کا شوہر نکاح کے بعد کہیں چلا گیا،اب اس کوگئے ہوئے دسواں برس ہے اور جب سے گیا ہے،کچھ اس کا پتہ نہیں ہے کہ کہاں ہے؟مرگیا یا جیتا ہے؟اس عورت نے بمشکل تمام اب تک اس کا انتظار کیا اور اب انتظار نہیں کرسکتی،اس صورت میں اس کا نکاح دوسرے کسی سے کردینا درست ہے یا نہیں؟
اس صورت میں اس عورت کا نکاح دوسرے شخص سے کردینادرست ہے،لیکن اس عورت کو چاہیے کہ اولاً اس مقدمہ کو اپنے سردار کے پاس پیش کرے اور سردار اس عورت کا بیان سن کر اور اس بیان کی تحقیق کرکے اس کے شوہر کے موت کا حکم دے اور اس عورت کو حکم دے کہ چار مہینے دس روز عدت بیٹھے ،بعد اس کے اس کاولی دوسرے سے نکاح کر دے۔موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے:
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یحییٰ بن سعید سے روایت کرتے ہیں،وہ سعید بن المسیب سےروایت کرتے ہیں،وہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اسے کچھ معلوم نہ ہوکہ وہ کہاں چلا گیا ہے،تو وہ چار سال اس کاانتظارکرے،پھر چار ماہ دس دن عدت گزار کر حلال ہوجائے۔
واتفق علي ذلك خمسة من الصحابة ‘منهم الخيلفة الراشد الناطق بالصواب عمر بن الخطاب رضي الله عنه والخليفة الراشد ذوالنورين عثمان بن عفان رضي الله عنه كذا قاله الحافظ في فتح الباري لانه منع حقها بالغيبة فينوب القاضي منابه في التسريح باحسان وهو موئيد بقوله تعاليٰ:پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس پر اتفاق کیا ہے:ان میں سے ایک خلیفہ راشد ناطق بالصواب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خلیفہ راشد ذوالنورین عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فتح الباری میں یہی کہا ہے،کیونکہ اس(گم شدہ خاوند) نے غیب رہ کر اس(عورت) کا حق روکا ہوا ہے لہذا قاضی اس(خاوند) کا قائم مقام بن کر اس عورت کو اچھے انداز میں رخصت کردے گا۔اس موقف کی تائید اس فرمان باری تعالیٰ سے بھی ہوتی ہے۔
"فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ" پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے،یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے"
نیز اس کا فرمان ہے:
"تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑدو اور انھیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو"
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ نامرد کی مدت مہلت ایک سال مقرر کی گئی ہے،باوجود اس کے کہ وہ نان ونفقہ اور لباس دیتاہے ،اس پر جو ضروری ہے،اس کے دینے کا عہد کر تا ہے اور سال کے بعد اس کے صحت یاب ہونے اور جماع پرقادر ہونے کا احتمال بھی ہوتا ہے،جب کہ گمشدہ آدمی کے احوال کا کچھ علم نہیں ہوتا،نہ وہ نان ونفقہ دیتا ہے نہ کوئی عہد ومعاہدہ کرتا ہے اور بالفعل کسی معاملے کی قدرت نہیں رکھتا تو آخر چار سال کے بعد(اس کی بیوی کو) نئے نکاح کا فتویٰ کیوں نہ دیا جائے؟
[1] ۔موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (2/575)