سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(250) بیوی کو چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جانا ؟

  • 23015
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 723

سوال

(250) بیوی کو چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جانا ؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید اپنی زوجہ ہندہ کو عرصہ چار سال سے چھوڑ کر ملک دکن کی طرف چلا گیا اور اسی اطراف میں ہے اور اس درمیان میں خبر گیری نان ونفقہ کی نہ لی،اس درمیان میں ہندہ سے زنا بھی سرزد ہوا،یہاں تک کہ ایک لڑکا زنا سے پیدا ہوا۔اب ہندہ نے بسبب نہ پوری ہونے حاجت اور نہ ملنے نان ونفقہ کے عمرو سے نکاح کیا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ نکاح اول فسخ نہیں ہوا اور نہ عدت بیتی،اس وجہ سے نکاح ثانی جائز نہیں۔آیا شرعاً نکاح ثانی جائز ہوا یا نہیں؟در صورت عدم جواز کے ہندہ کو کیا کرنا چاہیے؟آیا فسخ کرالے اور فسخ کون شخص کرے اور فسخ کرنے والا کن الفاظوں سے کہے اور بعد فسخ کےعدت بیٹھے یا نہیں؟جملہ مضمون کو خیال فرماکر جواب مع مواہیر مرحمت ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں ہندہ کانکاح ثانی جائز نہیں ہوا،کیونکہ ہندہ بوقت نکاح ثانی شوہر دار عورت  تھی۔اور شوہر دار عورت کا نکاح حرام ہے"

﴿وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ النِّساءِ...﴿٢٤﴾... سورة النساء

"یعنی شوہر دار عورتیں تم پر حرام کی گئیں "

اور جب نکاح ثانی جائز نہیں ہوا تو ہندہ شوہر اول کے نکاح میں علی حالہا باقی رہی۔اب اسی کو اختیار ہے کہ معلق رہے یا بذریعہ حاکم وقت وسرداران شہر کے جودونوں کے خیر خواہ ہوں،شوہر سے اپنا حق طلب کرے۔اگر اس  تشدد پر اس  کی حق رسی ہوئی تو بہتر،ورنہ شوہر سے طلاق طلب کرے۔اگر شوہر طلاق نہ دے تو سرداروں کو مناسب ہے کہ ان دونوں میں  تفریق کردیں اور صورت تفریق کی یہ ہے کہ عورت سے کہہ دیں کہ تیرا گزران اس کے ساتھ نہیں ہوسکتا،اس لیے ہم لوگ تیرا نکاح فسخ کردیتے ہیں۔پس جب سرداروں نے نکاح فسخ کردیا  تو عورت پر لازم ہے کہ تین حیض اگرحیض آتا ہو،ورنہ تین ماہ عدت گزارے۔

"عن منصور عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة رضی اللہ تعالیٰ عنھا قالت " أمرت بريرة أن تعتد بثلاث حيض"[1]

(اخرج ابن ماجہ)

"عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے مروی ہے کہ بلاشبہ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کوحکم دیا گیا کہ وہ تین حیض عدت گزارے"

قال الحافظ في فتح الباري:حديث ابن ماجه علي شرط الشيخين بل هو في اعلي  درجات الصحة انتهي[2]

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فتح الباری میں لکھاہے کہ ابن ماجہ کی حدیث بخاری ومسلم کی شرط  پر ہے ،بلکہ وہ صحت کے اعلا درجات پر فائز ہے۔

بعد اس کے اگر عورت چاہے تو کسی سے نکاح کرالے۔

﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها إِن يُريدا إِصلـٰحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَينَهُما...﴿٣٥﴾... سورة النساء

"اور اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف مرد کےگھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو،اگروہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت  پیدا کردے گا۔"

"اليد العليا خير من اليد السفلي وابدأ بمن تعول‏,تقول المراة:اطعمني او طلقني[3]

(رواہ دارقطنی واسنادہ حسن عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ مرفوعاً)

اوپر والا  ہاتھ(خرچ کرنے والا) نیچے والا ہاتھ(مانگنے والے)سے بہتر ہے۔تم میں سے کوئی(خرچ کی) ابتدا اس سے کرے۔جس کی کفالت کا وہ ذمہ دار ہے۔اس کی بیوی کہتی ہے:مجھے کھانے پینے کو دو،نہیں تو مجھے طلاق دے دو۔"

وَعَنْ عُمَرَ - رضي الله عنه -: "أَنّهُ كَتَبَ إلى أُمَرَاءِ الأجْنَادِ في رجَالٍ غَابُوا عَنْ نِسَائِهِمْ: أَن يَأخُذُوهُمْ بأَنّ يُنْفِقُوُا أَوْ يُطَلّقُوا، فَإن طَلّقُوا بَعَثُوا بِنَفَقَةِ مَا حَبَسُوا" أَخْرَجَه الشّافِعِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ بإسْنَادٍ حَسَنٍ.[4]

(اخرجہ الشافعی ثم البیہقی باسناد حسن،بلوغ المرام،مطبوعہ فاروقی دہلی ،ص:76)

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ انھوں نے لشکروں کے امرا کو ان لوگوں کے بارے میں خط لکھا جو اپنی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے ہوئے ہیں کہ ان کو پکڑ کرکہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو نفقہ بھیجیں یا ان کوطلاق دے دیں۔اگر وہ ان کو طلاق دیں تو جتنی دیر انھوں نے ان کو روکا ہے۔اس مدت کا بھی نفقہ دیں۔

﴿وَالّـٰـٔى يَئِسنَ مِنَ المَحيضِ مِن نِسائِكُم إِنِ ارتَبتُم فَعِدَّتُهُنَّ ثَلـٰثَةُ أَشهُرٍ وَالّـٰـٔى لَم يَحِضنَ ...﴿٤﴾... سورة الطلاق

(سورہ طلاق رکوع 1)واللہ اعلم بالصواب۔

"اور وہ عورتیں جو تمہاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہوچکی ہیں،اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض نہیں آیا"


[1] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(2077)

[2] ۔فتح الباری(9/405)

[3] ۔سنن دارقطنی (3/295)

[4] ۔مسند الشافعی(1274) سنن البیہقی(7/469)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:444

محدث فتویٰ

تبصرے