زید کا نکاح ہندہ سے ہوئے سات برس ہوئے۔زید نکاح سے پندرہ روز بعد اپنی بیوی چھوڑ کر چلا گیا۔تقریباً ایک سال انتظار کرکے ہندہ کے باپ نے اس کی جانب سےزید پر نان ونفقہ ودین مہر کی عدالت میں نالش کردی۔عدالت نے جبراً اس کو بذریعہ حکم نامہ طلب کیا۔یہاں تک کہ اس پر مہر وغیرہ کی ڈگری ہوگئی زید مقدمہ فیصل ہونے سے پہلے ہی فرار ہوگیا اب تک اس کوروپوش ہوئے یا فرار ہوئے پانچ سال ہوگئے۔کوئی خط وغیرہ اپنی بیوی کے پاس نہیں روانہ کیا یہاں تک کہ سمن سرکاری طور پر اس کی گرفتاری کا اور خطوط رجسٹری شدہ اس کے پاس(یعنی جہاں اس کاپتہ پایا) بھیجا،مگر سب واپس آئے تو اس صورت میں کہ وہ اپنی بیوی کو نہ تو نان ونفقہ دے اور نہ اس کے پاس آئے اور نہ خط وغیرہ بھیجے اور نہ طلاق دے،اس کاباپ چاہتا ہے کہ اس کا نکاح کہیں دوسری جگہ پر کردے،اس میں قرآن وحدیث کی رو سے کیا حکم ہے؟
اس صورت میں حاکم سے زید اور ہندہ کے درمیان تفریق کراکر ہندہ کا کہیں دوسرا نکاح کردیاجائے،بلوغ المرام میں ہے:
"وعن سعيد بن المسيب : (في الرجل لا يجد ما يمسك على أهله؟ قال: يفرق بينهما) أخرجه سعيد بن منصور عن سفيان عن أبي الزناد عنه قال: قلت لـسعيد بن المسيب : سنة؟قال:سنة وهذا مرسل قوي"[1]سعید بن المسیب سے اس آدمی کے متعلق مروی ہے۔ جو اپنے اہل پر خرچ کرنے کو مال نہیں پاتا ہے،چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں کےدرمیان جدائی کرادی جائےگی،اس کو سعید بن منصور نے سفیان سے بیان کیاہے،انھوں نے ابو الزناد سے روایت کیا ہے ،انھوں نےکہا کہ میں ے سعید بن المسیب سے پوچھا: کیا یہ سنت ہے؟ انھوں نے جواب دیا:ہاں سنت ہے یہ قوی مرسل ہے۔
سبل السلام شرح بلوغ المرام(2/127) میں ہے:
"ومراسيل سعيد معمول بها لما عرف من انه لا يرسل الا عن ثقة انتهي""مراسیل سعید معمول بہا ہیں،کیوں کہ یہ بات معلوم ہے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے ارسال کرتے ہیں۔"
نیز اسی صفحہ میں ہے:
"وقد اخرج الدارقطني والبيهقي من حديث ابي هريرة مرفوعاً بلفظ قال رسول الله صلي الله عليه وسلم في الرجل لا يجد ما ينفق علي امراته قال:(يفرق بينهما")[2]امام دارقطنی اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً ان الفاظ میں روایت کی ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے متعلق فرمایا،جسے اپنی بیوی پر خرچ کرنے کے لیے مال میسر نہ ہو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے درمیان جدائی کرادی جائے۔"
اگر زید نادار نہ ہو اور لاپتا ہوتو مفقود الخبر کا حکم جاری ہوگا وہ یہ کہ اس صورت میں حسب حکم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ زید اور ہندہ کے درمیان تفریق کراکر اور عدت کے ایام(چار مہینے دس روز) گزار کر ہندہ کا کہیں دوسرا نکاح کردیاجائے اور یہی قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔
ہدایہ میں ہے:
"وقال مالك : إذا مضى أربع سنين يفرق [ ص: 384 ] القاضي بينه وبين امرأته وتعتد عدة الوفاة ثم تتزوج من شاءت ، لأن عمر رضي ... فعل في الذي استهوته الجن بالمدينة "[3]"امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ جب چار سال مکمل ہوجائیں تو قاضی اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کرادے،وہ عورت عدت وفات گزارے اور پھر جس سے چاہے نکاح کرلے،کیوں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےاس شخص کے متعلق یہی فیصلہ کیاتھا جسے مدینے سے جنات اٹھا کرلے گئے تھے۔"
(نصب الرایہ لاحادیث الھدایۃ (2/165) میں ہے:
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے وہ سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں کہ یقیناً عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:جس عورت کا خاوند گم ہوجائے حتیٰ کہ اسے کچھ معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں ہے تو وہ عورت چار سال تک اس کا انتظار کرے اور پھر چار ماہ دس دن عدت گزار کر حلال ہوجائے۔عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اپنی مصنف میں یوں روایت کیاہے کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی،انھوں نے کہا کہ یحییٰ بن سعید نے ہمیں یہ بیان کیا۔انھوں نے اس روایت میں یہ الفاظ زائد بیان کیے:اگر وہ چاہے تو کہیں نکاح کرلے۔ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مصنف ایک اور اثر روایت کیا ہے کہ ہمیں عبدالاعلیٰ نے بیان کیا،انھوں نے معمر سے روایت کیا،انھوں نے زہری سے روایت کیا،انھوں نے سعید بن مسیب سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عورت کے متعلق فرمایا،جس کاشوہر گم ہوچکا ہو، وہ چار سال تک انتظار کرے اور چار ماہ دس دن عدت گزارے۔"
[1] ۔بلوغ المرام(1158) نیز دیکھیں سنن سعید بن منصور(2/55)
[2] ۔سبل السلام للصنعانی(3/224)
[3] ۔الھدایۃ (12/181)