سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(247) شادی میں کھانے کی دعوت کرنا

  • 23012
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 738

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک لڑکی ہے ،جس کے باپ ودادا دونوں موجود ہیں اور دادا ایک تونگر آدمی ہے۔وہ کہتا ہے کہ میری اس میں خوشی ہے کہ بعد عقد  دو روز یا تین روز نوشہ مع خویش واقارب خود ہمارے یہاں کھانا کھائے تو ہم رخصتی کریں گے،ازروئے شرع شریف یہ دعوت جائز ہے یا نہیں؟(مولوی محمد منیر خان،شہر بنارس مدنپورہ مکان مولوی عبدالطیف۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقد نکاح  کے متعلق شرع شریف نے دلہن کی جانب کوئی خرچ نہیں رکھا ہے بلکہ جو کچھ اس کے متعلق خرچ رکھا ہے وہ سب نوشہ کی جانب رکھاہے۔دلہن کی جانب اس کے متعلق کوئی خرچ نہیں رکھا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا ہے اور قرآن میں اس کی دو وجہ بتائی ہے،جن میں سے دوسری وجہ یہ بتائی ہے کہ مردوں نے اپنےمال خرچ کیے ہیں۔آیت کریمہ یہ ہے:

﴿الرِّجالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَمو‌ٰلِهِم...﴿٣٤﴾... سورة النساء

"مرد عورتوں پر نگران ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا"

اس سے  ثابت ہوا کہ عقد نکاح کے متعلق دلہن کی جانب کوئی خرچ نہیں ہے۔اگر دلہن کی جانب بھی خرچ ہوتا تو اس کو بھی حکومت  کا کچھ حصہ مرد پر دیا جاتا،کیونکہ حاکم ہونے کی دوسری وجہ مال کا خرچ کرنا ہی فرمایا ہے،حالانکہ عورت کو مرد پر حکومت کا حصہ کچھ بھی نہیں دیا گیا،بلکہ صاف فرمایا:

﴿الرِّجالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ ...﴿٣٤﴾... سورة النساء

(مرد عورتوں پر نگران ہیں)

پس جو دلہن کے دادا نے کہا  ہےکہ"میری اس میں خوشی ہے" اس کو بدل کرنا یوں کہنا مناسب ہے کہ اللہ ورسول کی جس میں خوشی ہے اس میں میری خوشی ہے کیونکہ جو کچھ میرے پاس ہے،سب اللہ کا ہی دیا ہوا ہے اور درحقیقت سب اسی کا ہے،جیسا کہ میں خود اسی کا ہوں۔پھر مجھے کیا اختیار ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ کروں اور کیا خوب بات ہوتی کہ دلہن کے دادا کو جو کچھ اس دعوت میں خرچ کرنے کا ارادہ تھا ،وہ سب دلہن اور نوشہ دونوں کو دے دیتا کہ اس میں دونوں کا فائدہ اور صلہ رحمی ہے،جو بڑے ثواب کا کام ہے اور شرع شریف کے بھی خلاف نہیں ہے،بلکہ عین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کی مرضی کے موافق ہے۔

چنانچہ صحیح بخاری(1/160 چھاپہ مصر) کتاب الانبیاء ذکر بنی اسرائیل میں بروایت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مرفوعاً مذکور ہے کہ ایک شخص نے کسی سے ایک زمین خریدی۔خریدنے کے بعد اس زمین میں اشرفیوں کا بھرا ایک گھڑا پایا۔مشتری سے کہا کہ یہ مال تمہارا ہے تم اسے لے لو،اس لیے کہ میں نے صاف زمین خریدی ہے،اشرفیاں نہیں خریدی ہیں۔بائع نے کہا:میں تو اسے نہیں لینے کا، اس لیے کہ میں تمہارے ہاتھ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے،سب بیچ دی ہے۔آخر ان دونوں نے ایک شخص کو پنچ مانا۔پنچ نے دونوں کا بیان سن کر پوچھا کہ تم دونوں کی اولاد بھی ہے؟ایک نے کہا کہ ہاں میرے ایک لڑکا ہے۔دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے۔پنچ نے یہ  فیصلہ کردیا کہ تم دونوں اپنے لڑکے اور لڑکی کو آپس میں بیان دو اور یہ اشرفیاں ان دونوں پر خرچ کردو۔صحیح بخاری کی یہ عبارت ہے:

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم قال : ( اشترى رجل من رجل عقاراً له ، فوجد الرجل الذي اشترى العقار في عقاره جرّة فيها ذهب ، فقال له الذي اشترى العقار : خذ ذهبك مني ؛ إنما اشتريت منك الأرض ولم أبتع منك الذهب ، وقال الذي له الأرض : إنما بعتك الأرض وما فيها ، فتحاكما إلى رجل ، فقال الذي تحاكما إليه : ألكما ولد ؟ ، قال أحدهما : لي غلام ، وقال الآخر : لي جارية ، قال : أنكحوا الغلام الجارية ، وأنفقوا على أنفسهما منه ، وتصدقا ) متفق علیه) .[1]

"ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:"ایک آدمی نے کسی شخص سے زمین خریدی۔زمین کے خریدار کو زمین سے سونے  سے بھرا ہوا ایک مٹکا ملا۔زمین خریدنے والے نے اس(فروخت کنندہ) سے کہا:تم مجھ سے اپنا سونالے لو،کیوں کہ میں نے تجھ سے زمین خریدی ہے،سونا نہیں خریدا۔اس زمین(بیچنے) والے نے کہا کہ میں نے تمھیں زمین بیچی اور جو کچھ اس میں تھا(وہ بھی تمہاری کوئی اولاد ہے؟ایک نے کہا:میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا:میری ایک لڑکی ہے۔اس(فیصلہ کرنے والے) نے کہا:لڑکے کا نکاح لڑکی سے کردو۔اس(مال) میں سے ان دونوں کی ذات پر بھی خرچ کرو اور صدقہ بھی کرو۔"

ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کا مقصود اس واقعہ کے بیان فرمانے سے اس کے سوا اور کیا ہے کہ میری امت بھی ایسی صورت میں ایسا ہی کرے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ صورت اس واقعہ کی صورت مسئولہ سے ملتی جلتی ہے کیونکہ جیسا کہ اس میں ہے کہ مشتری دیتاہے اور بائع  قبول نہیں کرتا،اسی طرح اس میں ہے کہ ایک فریق کھانا کھلانا چاہتا ہے اور دوسرا فریق  عذر کر تا ہے۔پس کیا خوب ہوتا ہے کہ اس صورت میں بھی اسی فیصلے کے مطابق عمل کیاجاتا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خوشی کا موجب ہوتا اور آپ کی خوشی اللہ تعالیٰ کی خوشی کی موجب ہوتی۔


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(3285) صحیح مسلم ر قم الحدیث(1721)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:435

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ