بتقریب نکاح صبیہ دعوت وضافیت باراتیان جسے ضروریات نکاح صبہ سے جان کرکرتے ہیں،یہاں تک کہ کوئی سودی تمسک لکھ کر قرض لیتا ہے اور کوئی اس کے لیے لوگوں سے سائل ہوتا ہے اور جو صاحب دولت وثروت ہے،وہ خود اپنی دولت سے لوگوں کو دعوت دیتاہے ،یہ دعوت اور ضیافت ازروئے شرع شریف ثابت ہے یا نہیں؟
نکاح کے کسی قسم کے خرچ کا بار کسی آیت یا حدیث سے عورت پر ثابت نہیں ہوتا،بلکہ نکاح کے منعقد ہوتے ہی نکاح کے متعلق ساراخرچ عورت کا نفقہ(سکنی۔مہر۔طعام ولیمہ وغیرہ) صرف مرد پر عائد ہوجاتا ہے،بلکہ آیت کریمہ:
مرد عورتوں پر نگران ہیں،اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔میں اس امر کی صاف صراحت موجود ہے کہ مردوں کو عورتوں پر جو افسری حاصل ہے،اس کی دو وجہیں ہیں،جن میں سے دوسری وجہ یہی ہے کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔یہاں سے ظاہر ہے کہ عورت کے گھر باراتیوں کو لے جا کر عورت پر ان کی طعام داری کے خرچ کا بار ڈالنا یا عورت پر اور کسی قسم کے خرچے کابار ڈالنا خلاف مرضی شارع وقلب موضوع وناجائز ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔