ایک عورت ہے باکرہ غیر منکوحہ ،مگر زنا سے حاملہ ہوگئی اور ایک عورت ہے مطلقہ یابیوہ،جو قانون شرع کے موافق عدت پوری کرچکی ہے،مگر بعد انقضائے عدت وہ زنا سے حاملہ ہوگئی۔پس کیا ان عورتوں کا حالت حمل میں نکاح جائز ہے یا نہیں؟اگر نکاح جائز ہے تو کیا وطی بھی جائز ہے یا نہیں؟قرآن وحدیث اس بارے میں جو کچھ حکم فرمائیں،اس کو ظاہر فرمایا جائے۔
در صورت مرقومہ جس عورت کو زنا کاحمل ہے،اس سے نکاح جائز ہے،عام اس بات سے کہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ،نکاح جائز ودرست ہے،اگر زانی خود نکاح کرنا چاہتا ہے تو نکاح اور وطی دونوں حلال ہیں اور اگر غیر زانی نکاح کرنا چاہتا ہے تو نکاح جائز ہے اور وطی تاوضع حمل حلال نہیں۔چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں مذکور ہے:
"وقال ابو حنيفه ومحمد يجوز ان يتزوج امراة حاملا من الزنا ولايطاها حتيٰ تضع،وقال ابو يوسف لا يصح،والفتویٰ علی قولهما ،کذا فی المحيط،وفی مجموع النوازل:اذا تزوج امراۃ قد زنیٰ هو بها فظهر بها حبل فالنكاح جائز عند الكل‘وله ان يطاها عند الكل ‘وتستحق النفقة عند الكل ‘كذا في الذخيرة "انتهيامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ومحمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:زنا سے حاملہ عورت سے نکاح کرناجائز ہے،البتہ نکاح کرنے والا تا وضعِ حمل اس سے وطی نہ کرے۔ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ نکاح درست نہیں ہے،جب کہ(احناف کے ہاں) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق ہی فتویٰ دیا جاتا ہے۔محیط میں بھی ایسے ہی ہے۔مجموع النوازل میں ہے۔ کہ جب کوئی شخص ایسی عورت سے نکاح کرے،جس سےاس نے خود ہی زنا کیا ہو اور اس کے نتیجے میں حمل ظاہر ہوچکاہو تو تمام کے نزدیک نکاح جائز ہے۔سب کے نزدیک اس کو اس عورت سے وطی کرنا حلال ہے اور تمام کے نزدیک عورت نفقے کی حقدار ہے۔ذخیرہ میں بھی ایسے ہی ہے۔
"وهكذا في شرح الوقايه وفتح القدير وحبلي من زنا لا توطا حتي تضع حملها انتهي"(شرح وقایه)[1]"شرح وقایہ اور فتح القدیر میں بھی ایسے ہی ہے:زنا سے حاملہ ہونے والی عورت سے اس وقت تک وطی نہ کی جائے،جب تک وہ وضع حمل نہ کردے۔"
"وهذا كله اذا كان الناكح غير الزاني فان نكح الزاني بحبلي من زنامنه جاز النكاح اتفاقا وحل الوطي ايضا كذا في فتح القدير والله اعلم بالصواب"یہ سب اس صورت میں ہے ،جب نکاح کرنے والا زانی کے علاوہ کوئی آدمی ہو۔اگر زانی اس عورت سے نکاح کرے،جو اس کے ساتھ زنا کرنے کی وجہ سے حاملہ ہوئی ہوتو بالاتفاق نکاح اور وطی جائز ہے۔
فتح القدیر میں ایسے ہی ہے:۔
کتبہ:السید محمد عبدالسلام عفی عنہ ابو الحسن سید محمد الجواب صحیح ابو محمد عبدالحق۔
ان عورتوں کا حالت حمل میں نکاح جائز نہیں ہے۔
"جب كہ وہ نکاح میں لائی گئی ہوں بدکاری کرنے والی نہ ہوں اور نہ چھپے یار بنانے والی ہوں"
زانی نکاح نہیں کر تا مگر کسی زانی عور ت سے،یا کسی مشرک عورت سے،اور زانی عورت،اس سے نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک۔اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کردیاگیا ہے"
ان دونوں آیتوں سے ثابت ہے کہ عورت زانیہ سے مرد مومن کا نکاح جائز نہیں ہے۔
"اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کردیں"
اس آیت سے ثابت ہے کہ حاملہ عورت سے بھی حالت حمل میں نکاح جائز نہیں ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں حمل سے وہ حمل مراد ہے،جو ثابت النسب ہو اور زنا سے جو حمل ہو،وہ ثابت النسب نہیں ہے ،تواس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں یہ قید مذکور نہیں ہے۔اور نہ کسی آیت یا حدیث میں یہ قید مذکور ہے اور اپنی طرف سے کوئی قید لگانا جائز نہیں ہے۔پس یہ آیت اپنے اطلاق پر باقی رہے گی،ہاں اگر یہ عورتیں زنا سے سچی توبہ کرڈالیں تو ان کا نکاح بعد وضع حمل کے جائز ہے،کیونکہ آدمی جب گناہ سے سچی توبہ کرڈالتاہے تو گناہ سے بالکل پاک ہوجاتا ہے پس یہ عور تیں زنا سے توبہ کرڈالنے کے بعد زانیہ ہی نہ رہیں بلکہ عفیفہ ہوگئیں۔پس اس سے پہلی وجہ نکاح کے ناجائز ہونے کی جاتی رہی اور وضع حمل کے بعدحاملہ بھی نہیں رہیں،پس دوسری وجہ بھی جاتی رہی اور جب ان عورتوں کا حالت حمل میں نکاح ہی جائز نہیں تو وطی کیوں کر جائز ہوگی؟واللہ تعالیٰ اعلم۔
[1] ۔شرح الوقایہ(1/3/14) فتح القدیر(3/241)