سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(236) بیٹے کی زنا شدہ عورت سے نکاح کا حکم

  • 23001
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1243

سوال

(236) بیٹے کی زنا شدہ عورت سے نکاح کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص اپنے فرزند حقیقی کی مزنیہ سے نکاح کرے تو یہ نکاح جائز ہو گا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے میں فیما بین العلماء اختلاف ہے امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ نکاح ناجائز ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک جائز۔اس اختلاف کا منشایہ ہے کہ جہاں پر قرآن مجید میں محرمات عورتوں کا بیان ہے اور بعد بیان محرمات یہ فرمایا  ہے کہ ان کے سوا اور جو عورتیں ہیں وہ حلال ہیں اس جگہ اس مسئلے کے متعلق یہ فرمایا ہے۔

﴿وَحَلـٰئِلُ أَبنائِكُمُ الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم ...﴿٢٣﴾... سورة النساء

"تمھارے صلب یعنی حقیقی فرزندوں کی حلائل تم پر حرام کی گئیں ۔"

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ حلائل حلیلہ کی جمع ہے اور حلیلہ کے معنی زوجہ کے ہیں قاموس میں ہے :

حليلتك امراتك[1]

(یعنی تمھاری "حلیلہ" سے مراد تمھاری بیوی ہے)"مجمع البحار" میں ہے ۔

"وفيه ان تزاني حليلة جارك اي امراته والرجل حليلها"

 (اور اس میں ہے کہ تو اپنے پڑوسی کی حلیلہ یعنی اس کی بیوی سے زنا کرے اور مرد اس کا حلیل (شوہر ہوتا ہے) منتخب اللغات میں ہے "حلائل زنان نکاحی جمع حلیلہ است" اھ (حلائل حلیلہ کی جمع ہے اور یہ منکوحہ عورتوں کو کہتے ہیں) غیاث اللغات میں ہے"حلیلہ زن منکوحہ "اھ (حلیلہ منکوحہ عورت کا نام ہے)

جب "حلیلہ" کے معنی" زوجہ" کے ہیں اور مزنیہ زوجہ نہیں ہے تو آیت کریمہ سے صرف حقیقی فرزندوں کی زوجات کی حرمت ثابت ہوئی نہ ان کی مزنیات کی بھی اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ اگرچہ حلیلہ کے معنی زوجہ ہی کے ہیں اور مزنیہ زوجہ نہیں ہے لیکن مزنیہ بوجہ موطؤہ ہوجانے کے حکم میں زوجہ کے ہوگئی تو وہ بھی مثل واقعی زوجہ فرزند حقیقی کے حرام ہوگئی ہیں جلالین میں ہے:

"وحلائل ازواج ابناءكم الذين من اصلابكم" [2]

اور حلائل یعنی بیویاں تمھارے صلبی بیٹوں کی) تفسیر ابو السعود میں ہے)

وحلئل أبنآئكم: زوجاتهم. سميت الزوجة حليلة لحلها، أو لحلولها مع الزوج. او لحولها في محله وقيل لحل كل منهما ازار صاحبه وفي حكمهن مزنياتهم ومن يجرين مجراهن من الممسوسات ونظائرهن[3]

(تمھارے بیٹوں کی حلائل یعنی ان کی بیویاں زوجہ کو حلیلہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ( اپنے ) خاوند کے لیے حلال ہوتی ہے یا اس وجہ سے کہ اس (اپنے خاوند) کے گھر میں اترنے والی ہوتی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ دونوں (میاں بیوی) ایک دوسرے کا ازار کھولنے والے ہوتے ہیں مزنیات (جن سے زنا ہوا ہے) بھی انھیں کے حکم میں ہوں گی۔ اسی طرح فاحشہ عورتیں وغیرہ بھی انھیں کی طرح ہی ہیں)

بہر کیف صراحتاً کتاب اللہ سے صرف زوجہ فرزند حقیقی کی حرمت ثابت ہے نہ مزنیہ فرزندحقیقی کی بھی مزنیہ فرزند حقیقی کی حرمت جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا مذہب ہے صرف اجتہادی امر ہے اگرچہ اس مسئلے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کی دلیل صاف اور قوی ہے اور حدیث ابن ماجہ (ص146)

لأن الحرام لا يحرِّم الحلال[4]

یعنی حرام چیز حلال کو حرام نہیں کرتی بھی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے قول کی موید ہے کیونکہ باپ کو اپنے بیٹے کی مزنیہ سے نکاح کرنا قبل زنا کرنے بیٹے کے حلال تھا اور جب بیٹے نے اس عورت سے زنا کر لیا تو یہ زنا جو محض ایک حرام فعل ہے۔بیٹے کی مزنیہ کو باپ کے حق میں بحکم اس حدیث کے حرام نہیں  کر سکتا لیکن اس نکاح کی حلت خالی از شبہ نہیں ہے اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ باپ اس نکاح سے پرہیز کرے دنیا میں اور بہت سی عورتیں ہیں اور جس کسی عورت سے چاہے نکاح کر لے اور بیٹے کی مزنیہ کو بھی اگر نکاح کرنا ہی ہے تو اور جس کسی مرد سے چاہے کر لے صحیح بخاری (1/66)میں نعمان بن بشیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا :

الحلال بين والحرام بين وبينها مشتبهات لا يعلمها كثير من الناس  فمن اتقي المشتبهات استبرا لدينه وعرضه ومن وقع في الشبهات كراع يرعي حول الحمي يوشك ان يواقعه والله اعلم بالصواب[5]

(حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے جب کہ ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں  مشتبہ ہیں بہت سے لوگ ان کو نہیں جانتے پس جو شخص شبہات سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچالیا اور جو شخص شبہات میں مبتلا ہو گیا (تو وہ حرام میں مبتلا ہو گیا) جیسے وہ چرواہا گاہ کے آس پاس چراتا ہے تو قریب ہے کہ وہ اس (چراگاہ ) میں چرائے گا) (کتبہ: محمد عبد اللہ ۔


[1] ۔قاموس المحیط ص:986)

[2] ۔تفسیر الجلالین (ص:102)

[3] ۔تفسیر ابی السعود (2/162)

[4] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (2015)اس کی سند میں"عند اللہ بن عمر العمری "ضعیف ہے۔

[5] ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث (52)صحیح مسلم رقم الحدیث (1599)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:426

محدث فتویٰ

تبصرے