سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(235) شیعہ مرد عورت سے نکاح کرنے اور وراثت کا حکم

  • 23000
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 766

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت سنت و جماعت کا نکاح مرد شیعہ مذہب کے ساتھ اور مرد سنت و جماعت کا نکاح عورت شیعہ کے ساتھ ازروئے شرع شریف و قرآن و حدیث جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو ان میں توریث جاری ہوگی یا نہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح بھی جائز ہے اور تو ریث بھی جاری ہو گی اس لیے کہ ان میں جو اختلاف ہے وہ کتاب و سنت کی تاویل کا اختلاف ہے اور یہ اختلاف موجب اختلاف ملت نہیں ہے ہاں نکاح مذکور خلاف اولیٰ ہے لیکن جو شخص ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہو اس سے بوجہ اختلاف ملت نہ مناکحتجائز ہے نہ تو ریث جاری ہو گی۔ درمختار کی فصل "محرمات " میں ہے۔

تجوز مناكحة المعتزلة لانا لا نكفر احدا من اهل القبلة وان وقع الزاما في المباحث[1]

(معتزلہ سے نکاح جائز ہے کیوں کہ ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے اگر چہ مباحث میں الزام واقع ہے) "فرائض شریفی"(ص18مطبوعہ مصطفائی ) میں ہے۔

"بخلاف اهل الاهواء فانهم معترفون بالانبياء والكتب ويختلفون في تاويل الكتاب والسنة وذلك لا يوجب اختلاف الملة انتهي"

 (اہل اہوا کے برخلاف کیوں کہ وہ انبیاء اور کتابوں کے معترف ہیں اور کتاب و سنت کی تاویل میں اختلاف کرتے ہیں مگر یہ چیز اختلاف ملت کو واجب نہیں کرتی)"شرح مواقف "(ص726) مطبوعہ نو لکشور ) میں ہے۔

االمقصد الخامس في ان المخالف للحق من اهل القبلة هل يكفر ام لا؟ جمهور المتكلمين والفقهاء علي انه لا يكفر احدا من القبلة  فان الشيخ ابا الحسن قال في اول كتاب مقالات اسلامين اختلف المسلمون بعد نبيهم عليه السلام في اشياء ضلل بعضهم بعضا وتبرا بعضهم عن بعض فصاروا فرقا متباينين الا ان الاسلام يجمعهم ويعمهم فهذا مذهبه وعليه اكثر اصحابنا وقد نقل عن الشافعي انه قال:لاارد شهادة احد من اهل الاهواء الا الخطابية فانهم يعتقدون حل الكذب وحكي الحاكم صاحب المختصر في كتاب  المنتقيٰ عن ابي حنيفه رحمة الله عليه انه لم ي كفر احدا من اهل القبلة وحكي ابو بكر الرازي مثله عن الكرخي وغيره انتهي[2]

(پانچواں مقصد اس بارے میں کہ اہل قبلہ میں سے حق کی مخالفت کرنے والے کو کافر کہا جائے گا یا نہیں؟جمہور متکلمین اور فقہیا کا یہ موقف ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہ کہا جائے شیخ ابو الحسن  رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب"مقالات الاسلامین " کے آغاز میں لکھا ہے مسلمانوں نے اپنے نبی کے بعد کئی ایک چیزوں میں اختلاف کیا ایک نے دوسرے کو گمرا ہ کہا ایک دوسرے کا اظہار کیا پس وہ اس طرح مختلف فرقوں ہو گئے۔ہاں ان کو اسلام عمومی طور پر جمع کرتا ہے۔پس یہ ان کا مذہب ہے اور اس مذہب پر ہمارے اکثر اصحاب قائم ہیں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا میں اہل اہوا میں سے خطابیہ فرقے کے سوا کسی کی گواہی رد نہیں کرتا کیوں کہ وہ جھوٹ کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں حاکم صاحب المختصر نے کتاب المثقیٰ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت نقل کی ہے کہ وہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے ابو بکر رازی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی کرخی رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ سے اس قسم کی روایت بیان کی ہے) پھر اسی صفحہ میں ہے۔

اما علي ماهو المختار عندنا وهو ان لا يكفر احد من اهل القبلة ان السمائل التي اختلف فيها اهل القبلة من كون الله عالما بعلم او موجدالفعل العبد او غير متحيز ولا في جهة ونحوها ككونه مرئيا اولا لم يبحث النبي صلي الله عليه وسلم عن اعتقاد من حكم باسلامه فيها ولا الصحابة ولا التابعون فعلم ان صحة دين الاسلام لا تتوقف علي معرفة الحق في تلك المسائل وان الخطا فيها ليس قادحا في حقيقة الاسلام اذ لو توقفت عليها وكان الخطا قادحا في تلك الحقيقة لوجب ان يبحث عن كيفيته اعتقادهم فيها لكن لم يجر حديث في شئي منها في زمانه ولا في زمانهم اصلا فان قيل لعله صلي الله عليه وآله وسلم عرف منهم ذلك اي كونهم عالمين بها اجمالا فلم يبحث عنها لذلك كما لم يبحث علي علمهم بعلمه وقدرته مع وجوب اعتقادهما وما  ذلك الا بعلمه بانهم عالمون علي  طريق الجملة بانه تعاليٰ عالم قادر فكذا الحال في تلك المسائل قلنا:ما ذكرتم مكابرة لانا نعلم ان الاعراب الذين جاؤا اليه صلي الله عليه وآله وسلم  ما كانوا كلهم عالمين بانه تعاليٰ عالم بالعلم لا بالذات وانه مرئي في الدار الآخرة وانه ليس بجسم ولا في مكان وجهة وانه قادر علي افعال العباد كلها وانه موجد لها باسرها فالقول بانهم كانوا عالمين ها مما علم فساده بالضرورة واما العلم والقدرة فهما مما يتوقف عليه ثبوت نبوته لتوقف دلالة المعجزة عليهما فكان الاعتراف والعلم بها اي بالنبوة دليلا للعلم بهما ولو اجمالا فلذلك عليهما فكان الاعتراف والعلم بها اي بالنبوة دليلا للعلم  بهما ولو اجمالا فلذلك لم يبحث عنهما.[3]

(رہا یہ مسئلہ ہمارے نزدیک مختار مذہب کیا ہے تو وہ یہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہ کہو ۔ یقیناً وہ مسائل جن میں اہل قبلہ نے اختلاف کیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا علم کے ساتھ عالم ہونا یا بندے کے فعل کا موجد ہونا یا اس کا جہت میں متحیز نہ ہونا اور اسی طرح وہ دکھائی دے گا یا نہیں ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے جس شخص کے اسلام کا حکم لگایا تو ان مسائل میں اس کے اعتقاد کے بارے میں کھوج نہیں لگا یا ۔ صحابہ و تابعین نے بھی ایسانہیں کیا تو معلوم ہوا کہ دین اسلام کی صحت ان مسائل میں حق کی معرفت پر موقوف نہیں ہےاور ان میں غلطی حقیقت اسلام میں قادح نہیں ہے اگر حقیقت اسلام دین مسائل پر موقوف نہیں ہے اور ان میں غلطی کرنا قادح ہوتا تو پھر یہ بھی واجب ہو تا کہ ان مسائل میں ان کے اعتقاد کی کیفیت کو معلوم کیا جائے اور اس کا کھوج لگایا جائے لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے دور میں اور نہ صحابہ و تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے زمانے میں ان مسائل میں سے کسی پر بات نہیں چلی۔

اگر کہا جا ئے کہ شاید آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو ان لوگوں کے ان اعتقادات کا اجمالی علم ہونا معلوم ہو۔ اسی لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس کا کھوج نہیں لگایا اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان کے اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت کے علم کا کھوج نہیں لگا،باوجود اس کے کہ ان دونوں کا اعتقاد رکھنا واجب ہے ایسا اس لیے ہوا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو یہ معلوم تھا کہ وہ اجمالی طور پر اس بات کو جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عالم و قادر ہے اور یہی حال مزکورہ بالا اختلافی مسائل کا تھا ۔

ہم اس کے جواب میں کہیں گے جو کچھ تم نے اس اشکال میں ذکر کیا ہے وہ تو محض عناد اور سینہ زوری ہے کیوں کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آئے تھے وہ سب اس بات کا علم نہیں رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ عالم بالعلم ہے نہ کہ بالذات اور یہ کہ وہ عالم آخرت میں دکھائی دے گا وہ جسم نہیں ہے وہ کسی مکان میں ہے نہ جہت میں وہ تمام افعال عباد پر قادر ہے اور وہ ان تمام کا موجد ہے۔

پس یہ کہنا کہ وہ ان چیزوں کا علم رکھنے والے تھے یہ ان چیزوں سے ہے جس کا فساد یقینی طور پر معلوم ہے رہا اس کا علم اور اس کی قدرت تو یہ دونوں ان چیزوں سے ہے جن پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی نبوت کا ثبوت موقوف ہے کیوں کہ معجزے کی دلالت ان دونوں پر موقوف ہے اگر چہ وہ اجمالی ہو اسی لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان کے متعلق بحث اور تفتیش نہیں کی ۔

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا وہ اصول جن پر محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   کی نبوت کا صحیح ہو نا موقوف ہے ان کے دلائل اس لائق ہیں کہ وہ اونٹوں والوں پر بھی ظاہر و واضح ہیں پس جو شخص ایک باغ میں داخل ہوا وہاں اس نے کچھ نو پیداپھول دیکھے ،جو پہلے نہیں تھے پھر اس نے انگوروں کا ایک گچھا دیکھا جس کے تمام دانے سوائے ایک دانے کے(پک کر) سیاہ ہو چکے تھے باوجود اس کے کہ ان سب کو پانی ہوا اور سورج یکساں طورپر تمام جہات سے میسر آئی تو وہ یہ جاننے پر مجبور ہو گا کہ اس کا موجد فاعل مختار ہے کیوں کہ محکم فعل کی اپنے فاعل کے علم اور اس کے اختیار کی دلالت ضروری اور یقینی ہے اسی طرح معجزے کی دلالت مدعی کی صداقت پر یقینی ہوتی ہے جب یہ اصول معلوم ہو جائیں تو رسول کی صداقت کا معلوم ہو جانا ممکن بن جاتا ہے پس ثابت ہوا کہ اسلام کے اصول جلی ہیں اس کے دلائل اجمالاً واضح ہیں اسی لیے ان کی ٹوہ نہیں لگائی جاتی۔ برخلاف ان مسائل کے جن میں اختلاف ہوا ہے کیوں کہ وہ ظہور میں ان مسائل کی طرح نہیں ہیں بلکہ ان میں سے اکثر وہ ہیں کہ جو کتاب و سنت میں وارد ہوا ہے اس کو مبطل اس کے معارض و مخالف نہیں سمجھتا جس سے حق گو دلیل پکڑتا ہے ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تاویل جو اس کے مذہب کے مطابق ہے وہی اولیٰ ہے پس اس کو یہ مقام دینا ممکن نہیں ہے جس پر اسلام کا صحیح ہونا موقوف ہو۔ پس کسی کو کافر قرار دینے میں کوئی اقدام جائز نہیں ہے کیوں کہ اس میں بہت بڑا خطرہ ہے) واللہ اعلم بالصواب۔


[1] ۔الدر المختار مع ردالمختار (3/46)اس عبارت کی تو ضیح کرنے کے بعد علامہ ابن عابد ین لکھتے ہیں کہ" اگر کوئی رافضی (شیعہ) علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی الوپیت باجبریل کے وحی میں غلطی کرنے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی محبت کے انکار یا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   پر بہتان طرازی کا نظر یہ رکھتا ہے تو وہ کافر ہے کیوں کہ وہ قطعی دلائل کے ساتھ معلوم ہونے والے دین کے یقینی امور کی مخالفت کرتا ہے۔" "لہٰذا آج کل کے شیعہ رافضہ کے ساتھ مناکحت کا تعلق رکھنا درست نہیں کیوں کہ وہ ان تمام منکرات پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

[2] ۔شرح المواقف للجرنی(8/370)

[3] ۔ شرح المواقف للجرنی(8/27۔71)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:422

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ