سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(228) خالہ سے نکاح کا حکم

  • 22993
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 830

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کہ زید کے محل اول سے ایک لڑکی ہوئی اس لڑکی کے بیٹا ہے اور پھر زید کے محل ثانی سے لڑکی پیدا ہوئی تو فرمائیے کہ زید کے ناتنی اور زید کے محل ثانی سے جو بیٹی ہے دونوں میں نکاح جائز ہے یا نہیں ؟بینواتوجروا!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زید کے ناتنی اور زید کے محل ثانی سے جو لڑکی ہے دونوں میں نکاح جائز نہیں ہے اس لیے کہ زید کے محل ثانی سے جو بیٹی ہے وہ زید کے ناتنی کی خالہ علاتیہ ہے اور خالہ سے نکاح جائز نہیں ہے۔خواہ خالہ عیینہ ہو یا علاتیہ یا اخیا فیہ ۔ ہدایہ (1/287)چھاپہ مصطفائی ) میں ہے۔

قال لا يحل للرجل ان يتزوج بامه...الي ان قال:ولابخالته لان حرمتهن منصوص عليها في هذه الاية وتدخل فيها العمات المتفرقات والخالات المتفرقات وبنات الاخوة المتفرقين لان جهة الاسم عامة انتهي والله اعلم بالصواب

 (انھوں نے کہا آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں سے نکاح کرے۔ نہ اپنی خالہ کے ساتھ کیوں کہ ان کی حرمت اس آیت "حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ"

میں منصوص علیہا ہے اور ان میں متفرق پھوپھیاں متفرق خالائیں اور متفرق بھتیجیاں بھی داخل ہیں کیوں کہ (ان کے) اسم کی جہت عام ہے)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:418

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ