السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
انسان تھوڑا سا بھی غور کر لے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔ اس ذات نے اس انسان کو دینی اور دنیوی علوم حاصل کرنے کے اسباب عطا فرمائے ہیں اور ان اسباب کے بغیر وہ کسی قسم کا علم حاصل کر سکتا ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَاللَّـهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (النحل : ۷۸)
’’ اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے ، اس نے تمہیں کان دئیے ،آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دئیے، اس لیے کہ تم شکر گزار بنو۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے شکر کا پہلا درجہ یہ ہے کہ جو اسباب علم اس نے ہمیں عطا فرمائے ہیں انہیں اللہ ہی کے بارے میں استعمال کریں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ ....﴾ ( محمد :۱۹)
’’پس ( اے نبی ﷺ! ) خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور معافی مانگو اپنے قصور کی…‘‘
انسان اپنے خالق کو پہچانے بغیر اس ہدایت کی پیروی نہیں کر سکتا جو اسے دنیا اور آخرت میں سرفراز کر سکتی ہے، ورنہ تو خسارے کا شکار رہے گا ۔ لہٰذا انسان کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔
اگر انسان صحیح ایمان تک پہنچنا چاہتا ہے تو وہ علم کا راستہ اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ (الرعد:۱۹)
’’ بھلایہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب کو جو اس نے تم پر نارل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں ۔ نصیحت تو دانش مند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔‘‘
اس لیے کہ بلا سوچے سمجھے دوسروں کے پیچھے لگ جانے والوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ذرا سی آزمائش یا معمولی سا شبہ بھی ان کو ڈانواں ڈول کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾ ( الزمر:۹)
’’ ان سے پوچھو! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکسا ں ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کیا کرتے ہیں۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّـهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ﴾ |( الحج:۱۱)
’’ اور لوگوں میں کو ئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو الٹا پھر گیا، اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی،یہ ہے صریح خسارہ ۔‘‘