سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(213) بیوگان کا نکاح کرنا کیسا ہے؟

  • 22978
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1249

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بیوگان کا نکاح کرنا کیسا ہے اور لفظ "ایامی " کا جو قرآن مجید میں آیا ہے اس کے کیا معنی ہے ؟ مطلقاً نکاح فرض ہے یا سنت یا مستحب ؟بینو اتوجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ سورہ نور رکوع (4) میں فرماتا ہے۔

﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم ...﴿٣٢﴾... سورة النور

اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کردو) الْأَيَامَىٰ ...ايمکی جمع ہے ايم کے اصلی معنی بے شوہر والی عورت کے ہیں کنواری ہو خواہ شوہر مر گیا ہو یا طلاق دے دی ہو اور بے جورو والے مرد کو بھی اسیم کہتے ہیں لیکن یہ معنی مجازی ہیں اور مجازی معنی مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ ضروری ہے اور جہاں قرینہ نہ ہو وہاں مجازی معنی نہیں مراد لیے جاتے آیت کریمہ میں ظاہراً کوئی قرینہ نہیں ہے لہٰذا یہاں ظاہر ہے کہ اصلی معنی (بے شوہر والی عورتیں) مراد ہیں تفسیر کبیر (ص 383) چھاپہ مصر) میں ہے۔

لفظاالايام وان تناول الرجل والنساء فاذا اطلق لم يتناول الا النساء وانما يتناول الرجال اذا قيد۔۔۔۔الخ[1]

("ایامی"کا لفظ اگرچہ مردوں اور عورتوں کو شامل ہے لیکن جب یہ مطلق استعمال ہو تو صرف عورتوں کو شامل ہوتا ہے مردوں کو تب شامل ہوتا ہے جب یہ مقید استعمال ہو۔الخ ۔

تفسیر فتح البیان (6چھاپہ مصر) میں ہے۔

قال ابو عمرو والكسائي واتفق أهل اللغة على أن الأيم في الأصل هي المرأة التي لا زوج لها ، بكرا كانت أو ... قال أبو عبيد : يقال رجل أيم وامرأة أيم ؛ وأكثر ما يكون ذلك في النساء ، وهو كالمستعار في الرجال[2]

(ابو عمرو اور کسائی نے کہا ہے اہل لغت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ"الایم " کے اصل معنی بے شوہر والی عورت کے ہیں خواہ وہ کنواری ہو یا ثیبہ ۔ ابو عبید نے کہا ہے کہا جا تا ہے۔ "رجل ایم"(بے جورو مرد) "امراۃ ایم" (بے شوہر عورت ) اس لفظ کا اکثر اطلاق عورتوں پر ہوتا ہے مرد کے لیے استعمال میں مستعارلیا گیا ہے)

تو آیت کریمہ کے معنی یہ ہوئے ۔"جو تم میں بے شوہر والی عورتیں ہیں ان کو بیاہ دو۔" اگر"ایامی " کالفظ مردو عورت دونوں کو شامل مانا جائے تو معنی یہ ہوئے ۔"جو تم میں بے جورو والے مردو بے شوہر والی عورتیں ہیں ان کو بیا دو۔"

تفسیر کبیر میں ہے۔

قوله تعالى: {وَأَنْكِحُواْ الأيامى} [النور: 32] أمر وظاهر الأمر للوجوب على ما بيناه مرارًا فيدل علي ان الولي يجب عليه تزويج مولاته .....الخ[3]

یعنی أَنْكِحُوکا لفظ (جو آیت کریمہ) میں ہے جس کے معنی ہیں بیا دو)امر ہے اور امر کے ظاہر معنی وجوب ہیں تو یہ لفظ اس بات پر دلیل ہے کہ ولی پر اپنی مؤلیہ کا( جس کا وہ ولی ہے) بیاہ دینا واجب ہے تفسیر ابن کثیر (7/85چھاپہ مصر) میں ہے:

 هذا امر بالتزويج وقد ذهب طائفة من العلماء الي وجوبه علي كل من قدر عليه....الخ

یعنی أَنْكِحُو[4]امر ہے "انکاح "کا اور علما کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ ہر ایک شخص پر جو "ایامی"کے بیاہ دینے پر قادر ہے بیاہ دینا واجب ہے۔

واضح رہے کہ اللہ پاک نے اس آیت میں بے شوہر والی عورتوں کے والی وارثوں کو حکم دیا کہ تم ان کا نکاح کر دواور یہ نہیں فرمایا کہ اب کی درخواست کا انتظار کرو یعنی جب وہ تم سے نکاح کر دینے کی درخواست کریں تب تم ان کا نکاح کر دو۔ بلکہ مطلق فرمایا کہ تم نکاح کردو اس سے معلوم ہواکہ جس طرح کنواری عورتوں کے نکاح کر دینے  میں ان کی درخواست کا انتظار نہیں کرتے بلکہ شرع شریف کے مطابق ان سے اجازت لے کر ان کا نکاح کر دیتے ہیں اسی طرح بیوہ کے والی وارث کو چاہیے کہ ان کے نکاح کر دینے میں ان کی درخواست کا انتظار نہ کریں بلکہ شرع شریف کے مطابق ان سے اجازت لے کر ان کا نکاح کریں مشکوۃ شریف "باب تعجیل الصلاۃ " میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا :

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ : "يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا الصَّلَاةُ إِذَا آنــَـتْ وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَاكفؤا[5](رواہ الترمذی)

یعنی اے علی تو تین کام میں دیر نہ کریو۔ ایک نماز میں جب اس کا وقت آجائے دوسرے جنازے میں جب موجود ہوجائے تیسرے بے شوہر والی عورت کے نکاح کر دینے میں جب اس کا جوڑا مل جائے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بے شوہر والی عورت کا جب جوڑا مل جائے تو اس کے نکاح کردینے میں دیر کرنا ایسا ہی برا جانیں جیسے نماز میں دیر کرنا یا جنازہ کا پڑا رکھنا براجانتے ہیں اب یہ بات دیکھنا چاہیے کہ نکاح بیوگان میں ہمارے پیشوا حضرت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا کیا معمول رہا؟ پہلے آپ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن  اجمعین کا حال سنیے۔

ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن  اجمعین کا حال:۔

آپ کی بیبیاں (باستثنائے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے) سب کی سب بیوہ تھیں آپ سے پہلے ان میں سے کسی کا ایک نکاح ہو چکا تھا دوسرا نکاح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا۔ کسی کے دو نکاح ہو چکے تھے تیسرا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا۔

اس کی تفصیل :۔

آپ کی بیوہ بیبیوں میں سے پہلی بی بی حضرت خدیجہ کبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی ماں بلکہ (آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کے سوا) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی جملہ اولاد ذکورو اناث کی ماں ہیں ان کا نکاح پہلے ابو ہالہ سے ہوا تھا ابو ہالہ کے بعد عتیق بن عائز سے ہوا یا پہلے عتیق بن عائذ سے ہوا تھا پھر ابو ہالہ سے ہوا بہر کیف پہلے ان کے دو نکاح ہو چکے تھے تیسرا نکاح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا۔

(اسد الغایۃ للا مام ابن الائیر الجزری جھایہ مصر:5/434۔واکمال فی اسماء الرجال للشیخ ولی الدین الخطیب صاحب المشکوۃ جھایہ مجتبائی دھلی (ص9:واسماء الرجال للشیخ عبد الرحمٰن المحدث الدھلوی رحمۃ اللہ علیہ  ورقہ 39)

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی دوسری بی بی حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں ان کا نکاح پہلے سکران بن عمروسے ہوا تھا دوسرا نکاح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا ۔ (اسد الغایۃ 5/484۔واکمال ص15واسماء الرجال للشیخ عبد الحق روقہ39۔

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی تیسری بی بی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیٹی ہیں ان کا نکاح پہلے متیس بن حذافہ سہمی سے ہوا تھا ان کے بعد دوسرا نکاح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا۔ (اسد الغایۃ 5/425واکمال ص8واسماء الرجال للشیخ عبد الحق روقہ 401)

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی چوتھی بی بی حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں ان کا نکاح پہلے عبد اللہ بن حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے بعددورسرا نکاح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ پہلے ان کا نکاح طفیل بن حارث سے ہوا تھا پھر عبیدہ بن حارث سے ہوا تھا پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا۔(اسد الغایۃ 5/466)

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی پانچویں بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں ان کا نکاح پہلے ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے ہوا تھا ان کے بعد دوسرا نکاح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا ۔ )اسد الغایۃ 5/588)و اکمال ص15واسماء الرجال للشیخ عبد الحق ورقہ41)

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی چھٹی بی بی حضرت زینب بنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں ان کا نکاح پہلے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے طلاق دینے کے بعد اللہ پاک نے دوسرا نکاح آسمان پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے کر دیا جس کا ذکر سورت احزاب رکوع (5)میں ہے ۔(اسد الغایۃ 5/463واکمال ص12واسما الرجال للشیخ ورقہ 41)

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی ساتویں بی بی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں۔آپ کا نکاح پہلے عبید اللہ بن حجش سے ہوا تھا اس کے بعد دوسرا نکاح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا ۔

(اسد الغایۃ ص5/573واسما الرجال للشیخ ورقہ 41)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی آٹھویں بی بی حضرت جویریہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں ان کا نکاح پہلے مسافع بن صفوان سے ہوا پھر دوسرا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا (اسد الغایۃ 5/442)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی نویں بی بی صفیہ بنت حی رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں ان کا نکاح پہلے سلام بن مشکم سے ہوا تھا اس کے بعد کنانہ بن ابی الحقیق سے ہوا اس کے بعد تیسرا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی حضرت میمونہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں ان کا نکاح پہلے مسعود بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا پھر ابو رہم بن عبدالعزی سے ہوا ۔پھر تیسرا نکاح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ہوا۔(اکمال ص36اسماء الرجال للشیخ عبد الحق ورقہ:42)

اب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی صاحبزادیوں اور نواسیوں کا حال سنیے!

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی صاحبزادیوں اور نواسیوں کا حال:۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی ایک صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں ان کا نکاح پہلے عتبہ بن ابی لہب سے ہوا تھا اس کے بعد دوسرا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا ۔

 (اسد الغایۃ 5/463واکمال ص612،456۔/5واسما الرجال للشیخ ورقہ 36)

دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں ان کانکاح پہلے عتیبہ بن ابی لہب سے ہوا تھا اس کے بعد دوسرا نکاح حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا ۔

(اسد الغایۃ 5/463واکمال ص5/456۔612۔واسما الرجال للشیخ ورقہ 36۔)

آپ کی ایک نواسی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں ۔یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  و حضرت فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی بیٹی اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بہن ہیں ان کا نکاح پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے بعد عون بن جعفر سے ہوا۔

(اسد الغایۃ 5/614۔615)

دوسری نواسی حضرت امامہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ہیں یہ ابو العاص بن ربیع  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور آپ کی صاحبزادی حضرت زینب  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی بیٹی ہیں ان کا نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے بعد انھیں کی وصیت کے بموجب پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے بعد ان کی وصیت کے بموجب دوسرا نکاح مغیرہ بن نوفل سے ہوا ۔(اسد الغایۃ 5/400۔52)

دیگر صحابیات:۔

اب ان عورتوں کا حال سنیئے جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی صحابیات  رضوان اللہ عنھن  اجمعین اور صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی بیبیاں یا مائیں یا بیٹیاں یا بہنیں وغیرہ وغیرہ ہیں ۔

1۔اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ان کا نکاح پہلے جعفر بن ابی طالب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے بعد حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پھر تیسرا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا ۔

(اسد الغایۃ 5/395واکمال ص3واسما الرجال للشیخ عبد الحق ورقہ58)

2۔حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا  جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی پھوپھی کی بیٹی ہیں ان کا نکاح پہلے بن عمیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے بعد دوسرا نکاح طلحہ بن عبید اللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا۔(اسد الغایۃ 5/428واکمال ص8واسما الرجال للشیخ عبد الحق ورقہ 97)

3۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا   جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ماں ہیں ان کا نکاح پہلے مالک بن نضر سے ہوا تھا اس کے بعد دوسرا نکاح حضرت ابو طلحہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا۔(اسد الغایۃ 5/591واکمال  15)

4۔ صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہا   جو حضرت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی پھوپھی اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ماں ہیں ان کا نکاح پہلے حارث بن حرب سے ہوا تھا اس کے بعد دوسرا نکاح عوام سے ہوا ۔(اسد الغایۃ 5/495واکمال ص17واسما الرجال للشیخ عبد الحق ورقہ 157)

5۔فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ان کا نکاح پہلے ابو حفص بن مغیرہ یا ابو عمرو بن حفص سے ہوا تھا ان کے طلاق دینے کے بعد دوسرا نکاح اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا (اسد الغایۃ 5/526اکمال ص29واسما الرجال للشیخ عبد الحق ورقہ241)

6۔ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ان کا نکاح پہلے فاکہ بن مغیرہ سے ہوا تھا اس کے طلاق دینے کے بعد دوسرا نکاح ابو سفیان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا ۔ تاریخ الخلفا ء مطبع مجتبائی دھلی ص:124،135)

7۔ام کلثوم بنت العباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہا   یہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی چچیری بہن ہیں ان کا نکاح پہلے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے طلاق دینے کے بعد ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا ۔ ان کے بعد تیسرا نکاح عمران بن طلحہ سے ہوا۔ (اسد الغایۃ 5/612)

 8۔ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ان کا نکاح پہلے زید بن حارثہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے بعد زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہواان کے بعد عبد الرحمٰن بن عوف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا ان کے بعد چوتھا نکاح عمرو بن عاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا۔

(اسد الغایۃ 5/614واکمال ص31) 

9۔خولہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا نکاح پہلے حضرت حمزہ بن عبد المطلب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے بعد دوسرا نکاح نعمان بن عجلان سے ہوا (اسد الغایۃ 5/618)

10۔امیمہ بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ان کا نکاح پہلے عبد الرحمٰن بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے طلاق دینے کے بعد دوسرا نکاح رفاعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا۔(اسد الغایہ5/402)

11۔امیمہ بنت بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ان کا نکاح پہلے حسان بن واحد حہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا پھر دوسرا نکاح سہل بن حنیف سے ہوا۔(اسد الغایۃ 5/402)

12۔ام ایمن  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ان کا نکاح پہلے عبید سے ہوا تھا پھر دوسرا نکاح زید بن حارثہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا۔(اسد الغایۃ 5/408۔567واسما الرجال للشیخ عبد الحق ورقہ60)

13۔جمیلہ بنت ابی  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ان کانکاح پہلے حضرت حنظلہ غسیل الملائیکہ سے ہوا تھا ان کے بعد ثابت بن قیس بن شماس سے ہوا پھر مالک بن دخشم سے ہوا پھر چوتھا نکاح حبیب بن  یساف سے ہوا ۔(اسد الغایۃ 5/418۔417)

14۔جمیلہ بنت ثابت  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ان کا نکاح پہلے حضرت عمرو سے ہوا تھا ان کے طلاق دینے کے حضرت زید بن حارثہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا ۔(اسد الغایۃ 5/426)

15۔حمیمہ بنت صیفی رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ان کا نکاح پہلے براء بن معرور سے ہوا تھا پھر دوسرا نکا ح زید بن حارثہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا۔اسد الغا یۃ 5/426)

16۔زینب بنت حنظلہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ان کا نکاح پہلے حضرت اسامہ بن زید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہوا تھا ان کے طلاق دینے کے بعد نعیم بن عبد اللہ سے ہوا ۔ اسد الغا یۃ 5/ 566)

اب اتنے پر بس کیا جا تا ہے۔ اگر اس کی پوری تفصیل لکھی جائے تو ایک بہت بڑی ضخیم کتاب ہو جائے ۔ سمجھ دار آدمی کے لیے اتنا بہت ہے اور بے سمجھ کا کوئی علاج نہیں۔ جس کو تھوڑی سی بھی خداد عقل ہے وہ بخوبی سمجھ سکتاہے۔کہ جس طرح آدمی کو اللہ پاک نے کھانے پینے سونے جاگنے پیشاب پاخانہ وغیرہ وغیرہ کی ضرورت لگا دی ہے اسی طرح مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی ضرورت لگا دی ہے اس لیے دنیا کا دستور ہے کہ جب لڑکے لڑکیاں جوان ہونے لگتے ہیں تو ان کے ولیوں کو نکاح کی فکر کیسی مقدم ہو جاتی ہے۔ پھر جو عورت کہ خاوند کا منہ دیکھ چکی اور اس کے مزے سے وقف ہو چکی اس کی خواہش کا حال کیا پوچھنا ہے؟ اگر ایسی عورت بیوہ ہو جائے اور اس کا دوسرا نکاح نہ کردیا جائے تو شیطان سے کیونکر امن میں رہ سکتی ہے؟ اگر ایسی حالت میں کہ بڑے بڑے گھروں میں اس حکم خداوندی کی تعمیل میں سستی کرنے سے صدہا بلکہ ہزار ہا ایسے ایسے بے غیرتی کے واقعات ہوچکے اور ہوتے رہتے ہیں کہ الامان ۔ لیکن بے سمجھ لوگوں کو پھر بھی تنبہ نہیں ہوتا اور کچھ بھی اس بے غیرتی کا خیال نہیں کرتے اور کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ عورت مرجائے اور مرد دوسرا نکاح فوراً ہی کر لے تو یہ کچھ عیب کی بات نہیں اور مرد جائے اور عورت اپنا نکاح عدت گزرنے کے بعد کر لے تو بڑا عیب ہے اور کنواری لڑکی کے نکاح میں دیر کریں تو عیب ہے اور جوان عورت بیوہ رہ جائے تو کچھ عیب نہیں حالانکہ جو قباحت کنواریوں کے نکاح کے توقف میں ہے وہی قباحت بلکہ اس سے زیادہ بیواؤں کے نکاح کے تو قف میں ہے مینہ سے بھاگنا اور پر نالے کے نیچے جا کھڑا ہونا اور کیا ہے؟افسوس شیطان نے بڑا دھوکادیا ۔ اللہ تعالیٰ سچ فرماتا ہے:

﴿أَم لَهُم شُرَكـٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ...﴿٢١﴾... سورة الشورىٰ

(یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی)

خدا تعالیٰ ہم لوگوں کو سمجھ اور توفیق دے الحمد اللہ ربالعالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد والہ و اصحابہ اجمعین۔ کتبہ: محمد عبد اللہ الغازیفوری۔


[1] ۔تفسیر الرازی (33/376)

[2] ۔فتح البیان للنواب صدیق خان  رحمۃ اللہ علیہ  (9/213)

[3] ۔تفسیر الرازی(23/377)

[4] ۔تفسیر ابن کثیر (6/51)

[5] ۔سنن الترمذی رقم الحدیث (178۔1075)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:407

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ