زید نے اپنی لڑکی ہندہ نابالغہ کا نکاح بکر کے ساتھ کیا زید نے بعد بلوغ ہندہ کے چاہا کہ میں بغیر طلاق بکر کے ہندہ کا نکاح ساتھ دوسرے کے کردوں اور ہندہ بعد بلوغ کے نکاح ثانی پر راضی نہیں ہے اس صورت میں ہندہ کا نکاح بغیر طلاق دیے ہوئے بکر کے جائز ہے یا نہیں؟
طلاق حاصل کیے مذہب اہل اسلام میں نکاح دوسرا جائز نہیں ہے۔ یہ اظہر من الشمس ہے حاجت دلیل نہیں اور عند النفیہ نابالغہ کا نکاح اگر باپ دادا کے سوا کوئی اور کرے تو بعد بلوغ کے اس کو اگر خلوت صحیحہ اور تبدل مجلس نہ ہوا ہو۔ تب فوراًفسخ کا اختیار ہے اور اگر باپ دادانکاح کردے تب وہ نکاح لازم ہوا۔ اس کو بلوغ کے بعد فسخ کا اختیار نہیں ہے چنانچہ در مختار میں ہے۔
وللولي الاتي بيانه انكاح الصغير والصغير جبرا ولو ثيبا كمعتوه ومجنون شهرا ولزم النكاح ولو بغبن فاحش بنقص مهرها وزيادة مهره اوزوجها بغير كفو ان كان الولي المزوج بنفسه بغبن ابا اوجدا[1]"اور واسطے ولی کے ایسا ولی کہ آنے والا ہے بیان اس کا نکاح کرنا چھوٹے لڑکا اور چھوٹی لڑکی کا زبردستی اگر چہ یثبہ ہو اور لازم ہوتا ہے نکاح اگر چہ ہو ساتھ نقصان بہت کے مہر میں یا نکاح کرے اسی لڑکی کا بغیر اپنے کفوکے اگر ہووہ ولی نکاح کرنے والا باپ دادا ۔"واللہ اعلم بالصواب۔
[1] ۔الدر المختار مع رد المختار (3/66)