متعہ کا حکم مثل خنزیر ہے یا مثل زنا کے اور وقت اضطرار جائز ہے یا نہیں؟
نکاح متعہ جائز نہیں ہے یعنی ہر حال میں حرام ہے یہ نکاح قیامت تک حرام ہے۔
(اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں مگر اپنی بیویوں یا ان (عورتوں )پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلا شبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں)
(سبرہ جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو!میں نے تم کو عورتوں سے (نکاح )متعہ کرنے کی اجازت دے رکھی تھی اور (اب سن لو!)بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت تک حرام دیا ہے) کتبہ: محمد عبد اللہ ۔
اس کے متعلق واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کی اجازت حالت اضطرار میں فرمائی تھی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منسوخ فرمائی تو اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ جواز حالت اضطرار پر نسخ وارد ہوا۔ اب حالت اضطرار وغیرہ میں یکساں ناجائز و حرام ہے جس طرح زناو استمناء بالید ہر حال میں حرام ہے خنزیر و مردارپر اس کا قیاس نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے کہ گو تنگی میں جو اضطرار ہوتا ہے اس میں ہلاک نفس اور جان کا اندیشہ ہوتا ہے اس لیے سد رمق کے لیے تھوڑی مقدار میں اکل حرام جائز کیا گیا بخلاف شہوت انسانیہ کے کہ اس کی زیادتی میں جان کا اندیشہ نہیں ہے البتہ زنا کا اندیشہ ہے چنانچہ حسب فرمان شارع علیہ السلام اس کا علاج اس شخص کے لیے جسے نکاح کا مقدورنہ ہو۔ روزہ ہے اور بہت سی دوائیں بھی اس قوت کی گھٹانے والے ہیں بعض لوگ جو یہ عذر کے پیش کرتے ہیں کہ صحیح مسلم میں چونکہ لفظ کا تحذیر متعہ کے بارے میں وارد ہے اس لیے ہم بھی اسی موافق یہ لفظ بو لتے ہیں۔
سو واضح ہو کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ اور لوگوں کا قول ہے یہاں پر صحیح مسلم کی عبارت نقل کی جاتی ہے تاکہ ناظرین کو خود اس کی کیفیت معلوم ہو جائے۔
یعنی متعہ کرنا جسے اضطرار کی حالت ہو تو اس کے لیے ابتدائے اسلام میں جا ئز تھا جیسا کہ مردہ اور گوشت خنزیر کا حالت اضطرار میں جائز ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی باتوں کو محکم اور دوامی قرار دیا اور متعہ سے منع فرمایا:
ایک عذر نامعقول یہ کیا جا تا ہے کہ محدثین نے "باب النکاح المتعۃ "منعقد کیا اور کتب حدیث میں اس کو لفظ نکاح سے تعبیر کیا گیا اور جب اس کو نکاح کہا گیا تو اب ہم اس کو مثل زنا کے نہیں کہہ سکتے ۔یہ بھی سخت غلط فہمی ہے اس کو نکاح اس لیے کہا گیا کہ اس میں ظاہراً صورت عقد کی پائی جاتی ہے اس لیے اس کو ترویج و نکاح کہا گیا ۔ ابو داؤد و نسائی وغیرہ میں ابو بردۃ سے مروی ہے۔
یعنی ابو بردہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی طرف بھیجا جس نے اپنے باپ کی عورت سے نکاح کر لیا تھا اور حکم فرمایا کہ اس شخص کو قتل کر ڈالو۔ اور اس کا مال لے لو۔
یہاں پر باپ کی منکوحہ سے عقد کرنے کو" تزوج " یعنی نکاح کہا گیا حالاں کہ یہ فعل زنا سے بھی بڑھ کر ہے کیوں کہ زنا کی سزا کو ڑے مارنا یا سنگسار مقرر کی گئی ۔فعل مذکور کی طرح قتل کر ڈالنا اور مال لے لینا نہیں قائم کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اور اپنی عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمھارے باپ نکاح کر چکے ہوں) یہاں بھی فعل مذکور پر لفظ نکاح بولا گیا یہی مسلک تاج المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ امام ابن حزم صاحب محلیٰ وغیرہم رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اگر تفصیل کی ضرورت ہوئی تو آئندہ ان شاء اللہ مفصل طور پر لکھا جائے گا۔کتبہ: محمد عبد الجبار عمر پوری۔
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1406)
[2][2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(1406)
[3] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (4457)سنن النسائی رقم الحدیث (2632)سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (3608)