1۔زید متمول و مالدار و مستطیع تھا چالیس پچاس برس یا چند سال حالت مالداری و استطاعت میں بعیش و آرام بسر کیا اور بہت کچھ سر مایہ چھوڑ کر بلاوصیت مر گیا تو حج بدل ،یعنی بالنیابۃ حج کرانا اس کی طرف سے جائز و محکوم شرع ہے یا منہی عنہ اور فرض جو اس پر تھا ساقط ہو گا یا نہیں؟
2۔بکر جس پر حالت پیرانہ سالی میں جو استطاعت طی مسافت کی نہیں رکھتا تھا یا کسی عذر سے معذور تھا یعنی مریض تھا یا اندھا و لنگڑا وغیرہ وغیرہ حج فرض ہوا۔ یعنی مالدار ہوا۔ مگر بسبب عجز و نا چاری کے حج نہ کرسکا اور مرگیا تو اس کی جانب سے حج جائزو مشروع ہے یا نہیں اور فرضیت اس کے ذمہ سے ساقط ہوگی یا نہیں؟
3۔کسی نے حج کی نذر کیا اور بلاعجز و عذر مدت تک عیش و آرام سے بسر کیا اور کسی نے حج کی نذر کیا اور فوراً مرگیا دونوں کا حکم مساوی ہے یا مختلف؟
4۔حج فرض بالنذر و حج فرض بالا ستطاعت کی ایک شان ہے اور دونوں متحد الاحکام ہیں یا مختلف الاحکام ؟بینوابالتفضیل
1۔اس صورت میں حج بد، یعنی بالنیابۃ حج کرانا زید کی طرف سے جائز و محکوم شرع شریف ہے منہی عنہ نہیں ہے۔اس حج بدل کرانے سے جو حج کہ زید پر فرض تھا ساقط ہو جائے گا۔
قال مسلم فی صحیحہ (1/362)
"عبداللہ بن بریدہ نے اپنے بریدہ سے روایت کی کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں آکر عرض کیا کہ میری ماں مر گئی اور اس نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کردوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کی طرف سے حج کردے۔"
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حج بدل ،یعنی کسی کی طرف سے بالنیابۃ حج کرنا جائز و محکوم شرع شریف ہے۔منہی عنہ نہیں ہے۔
"ابو الغوث بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مقام فرع کے رہنے والے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض تھا وہ مر گیا اور حج نہیں کیا؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے باپ کی طرف سے حج کردے ۔"اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جس پر حج فرض ہو اس کی طرف سے حج بدل کرنا جائز و محکوم شرع شریف ہے منہی عنہ نہیں ہے۔
"ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی کہ ایک مرد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں آکر عرض کیا کہ میرا باپ مر گیا اور اس پر حج اسلام فرض تھا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کردوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو یہ تو بتا کہ اگر تیرا باپ اپنے اوپر دین (قرض ) چھوڑ جاتا تو کیا اس کی طرف سے اس کا دین ادا کردیتا ؟عرض کیا: ہاں فرمایا :تو تو اپنے باپ کی طرف سے حج بھی کردے۔
"ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کو پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو اس کی طرف سے حج کردے۔تو یہ توبتا کہ اگر تیرے باپ پر دین ہوتا اور تو اس دین کو اپنے باپ کی طرف سے ادا کردیتا تو وہ دین تیرے باپ کی طرف سے ادا ہوجا تا؟عرض کیا ۔کیوں نہیں فرمایا:"تو اللہ کا حق تو اس سے بھی زیادہ احق ہے۔"
ان دونوں حدیثوں سے علاوہ جائز اور مشروع ثابت ہونے کے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس شخص کے زمہ حج فرض ہو اس کی طرف سئے حج بدل کر دینے سے وہ حج فرض اس کے ذمہ سے ساقط بھی ہو جا تا ہے جس طرح دین کہ مدیون کی طرف سے ادا کرنے سے اس کے ذمہ سے ساقط ہو جا تا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سائلین سے استقصال نہ فرمانا (یعنی یہ نہ پوچھنا کہ جس میت کی نسبت سوال کر رہے ہو۔ اس نے حج کی وصیت بھی کی تھی یا نہیں؟)اس بات پر دلیل ہے کہ حکم دونوں صورتوں میں یکساں ہے یعنی خواہ میت نے وصیت کی ہو یا نہیں کی ہو۔دونوں حلتوں میں اس کی طرف سے حج بدل کرنا جائز و مشروع ہے کیونکہ اگر حکم مختلف ہوتا تو آپ ضرور استقصال فرماتے اور بغیر استقصال فرمائے ایک حکم ارشادنہ فرماتے ،
وقال في الهداية في باب الحج عن الغير:"العبادات انواع مالية مححضه كالزكاة وبدنية محضة كاصلاة ومركبة منهما كالحج والنيابة تجري في النوع الثالث عند العجز ولا تجري عند القدرة ثم ظاهر المذهب ان الحج ينع عن محجوج عنه وبذلك تشهد الاخبار الواردة في هذا الباب كحديث الخشعمية فانه قال فيه حجي عن ابيك[5](انتھی بقدر الحاجۃ )(دوسروں کی طرف سے حج کرنے کے باب میں ہدلیۃ کے مصنف نے کہا کہ عبادات کی چند قسمیں ہیں ایک وہ جو خالص مالی عبادت ہے جیسے زکات ایک وہ جو محض بدنی عبادت ہے جیسے نماز اور ایک وہ جوان دونوں سے مرکب ہے جیسے حج عبادت کی اس تیسری قسم میں عاجزی آجانے کی صورت میں نیابت چلتی ہے اور قدرت کے وقت نیابت جاری نہیں ہوتی پھر ظاہر مذہب یہ ہے کہ حج اس کی طرف سے واقع ہو جا تا ہےجس کی طرف سے کیا جا ئے اس باب میں واردشدہ روایات اس کی گواہی دیتی ہیں جیسے خثیمہ کی حدیث ہے کہ بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں فرمایا ہے کہ اپنے باپ کی طرف سے حج کرو)
اس صورت میں بکر کی جانب سے حج جائز ومشروع ہے اور اس حج بدل سے فرضیت اس حج کی جو بکر کے ذمہ تھی،ساقط ہوجائےگی۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی کہ خشعم قبیلے کی ایک عورت نے حجۃ الوداع کے سال آکر عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کا فرض جو اس کے بندوں پر حج کے بارے میں ہے،اس فرض نے میرے باپ کو ایسی حالت میں پالیا ہے۔(یعنی ایسی حالت میں میرے باپ پر حج فرض ہوا ہے) کہ وہ نہایت ہی بوڑھا ہوگیا ہے،سواری پر بھی بیٹھ نہیں سکتا تو کیا اس کی طرف سے حج ادا ہوجائے گا،اگر میں اس کی طرف سے حج کردوں؟فرمایا:ہاں۔"
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بکر جیسے شخص پر بھی جو کسی طرح طی مسافت کی استطاعت نہیں رکھتا،حج فرض ہوجاتا ہے اور جب حج فرض ہوگیا اور بغیر ادا کے مرگیا تو وہ فرض اس کے ذمہ باقی رہا،بحکم جواب سوال نمبر 1۔اس کی طرف سے حج بدل کرناجائز ومشروع ہوگا اور اس حج بدل سے جو حج کہ اس کے ذمہ فرض تھا ،اس کی فرضیت بھی ساقط ہوجائے گی۔
3۔دونوں کا حکم(حج کی نذر کرنے سے حج کے فرض ہوجانے اور بغیر حج ادا کیے جانے مرجانے سے اس حج فرض کے ذمہ وار رہ جانے اور دونوں کی طرف سے حج بدل کے جائز ومشروع ہونے میں مساوی ہے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ جہنیہ کے قبیلے کی ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں آکر عرض کیا کہ میری ماں نے حج کی نذر کی تھی اور بغیر حج کیے مرگئی تو کیا میں اس کی طرف سے حج کردوں؟فرمایا:تو اس کی طرف سے حج کردے،بھلا یہ تو بتا کہ اگر تیری ماں پر دین ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کرتی یا نہیں؟اللہ کا حق ادا کیا کرو،کیونکہ اللہ کا حق وفا میں اس دین سے احق ہے۔"
اس حدیث سے ثابت ہے کہ حج کی نذر کرنے سے حج فرض ہوجاتا ہے ۔اور بغیر ادا کیے مرجانے سے اس حج کی فرضیت نازر کے زمہ باقی رہ جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے اس بیان میں کہ"میری ماں نے حج کی نذر کی تھی اور بغیر حج کے مرگئی"یہ استفصال نہیں فرمایا کہ تیری ماں حج کی نذر مان کر فوراً مرگئی یا مدت کے بعد مری؟اس سے معلوم ہوا کہ دونوں حالتوں میں حج بدل کے جائز ومشروع ہونے میں حکم مساوی ہے ،ورنہ اگر حکم مختلف ہوتو تو استفصال فرمانا ضروری ہوتا اور بغیر استفصال ایک خاص حکم لگانا صحیح نہ ہوتا۔
4۔حج فرض بالنذر اور حج فرض بالاستطاعت یعنی حجۃ الاسلام حکم فرضیت میں دونوں متحد ہیں،اس لیے کہ جس طرح آیت کریمہ:
اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے۔"اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،اسی طرح آیت کریمہ:
﴿"وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ ﴾"(الحج:29)"اور اپنی نذریں پوری کریں"بھی اسی کا کلام ہے۔
جس طرح آیت اولیٰ استطاعت کی فرضیت پر دال ہے ،اسی طرح آیت ثانیہ بھی حج کی فرضیت پر دال ہے اور یہ دونوں جس طرح حکم فرضیت میں متحد ہیں(بغیر ادا کیے مرجانے کی حالت میں) بقا حکم فرضیت(بذمہ مستطیع وناذر) میں وجواز ومشروعیت حج بدل میں بھی متحد ہیں،جیسا کہ مذکورہ بالا سوالات کے جوابات سے واضح ہوا۔ہاں صراحتاً ارکان خمسہ اسلام سے ہونے میں دونوں مختلف ہیں ،کیونکہ حجۃ الاسلام تو صراحتاً ارکان مذکورہ میں سے ہے اور حج فرض بالنذر صراحتاً ان میں سے نہیں ہے اور اگر زیادہ استقراء کیا جائے تو ممکن ہے کہ احکام مذکورہ کے علاوہ اور احکام میں بھی دونوں متحد یا مختلف ثابت ہوں۔واللہ اعلم بالصواب۔کتبہ:محمد عبداللہ (مہر مدرسہ)
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1149)
[2] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (5/290)اس کی سند میں "عثمان بن عطا الخراسانی "راوی متروک ہے البتہ اسی معنی میں اس سے ماقبل مذکورروایت صحیح ہے دیکھیں سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (2904)صحیح ابن خزیمہ(4/343)
[3] ۔مسند احمد (1/212) سنن الدارقطنی (2/260)
[4] ۔سنن الدارقطنی (2/260)
[5] ۔الھدایۃ (1/183)
[6] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1754)