ایک شخص ایک زن متوفیہ کی جانب سے حج بدل فرض کرنا چاہتا ہے اور ابھی تک اس نے حج بالکل ادا نہیں کیا۔ کیونکہ حج اس پر فرض نہیں وہ متوفیہ کی طرف سے حج بدل کرنا چاہتا ہے کیا یہ حج متوفیہ کی طرف سے ادا ہوجائے گا یا نہیں؟مطابق قرآن و حدیث جواب عنایت فرمایا جائے۔عبدالقیوم ڈال خانہ کانبواڑہ موضع بمعنی ۔ضلع سیونی چھپارہ (20/جمادی الثانی)
حدیث جو اس بارے میں وارد ہوئی ہے اس سے تو صاف یہی ثابت ہوتا ہے کہ جس نے اپنی طرف سے حج نہ کیا ہو۔ وہ دوسرے کی طرف سے حج بدل نہیں کرسکتا لیکن چونکہ اس حدیث میں کچھ تھوڑا ضعف ہے اس وجہ سے یہ مسئلہ اختلافی ہوگیا ہے مگر احوط یہی ہے کہ جو پہلے خود اپنی طرف سے حج کر چکا ہو۔ وہی دوسرے کی طرف سے حج بدل کرے اور وہ حدیث یہ ہے۔
(( رواه أبو داود (1811)، وابن ماجه 2364)، وابن خزيمة (4/345) (3039)، وابن حبان (9/299) (3988)، والطبراني (12/42) (12419)، والبيهقي (4/336) (8936). صححه الدارقطني في ((السنن)) (2/517)، وقال البيهقي: (إسناده صحيح)، ليس في هذا الباب أصح منه، وقال النووي في ((المجموع)) (7/117): (إسناده على شرط مسلم)، وقال ابن الملقن في ((البدر المنير)) (6/45): (إسناده صحيح على شرط مسلم)، وقال ابن كثير في ((إرشاد الفقيه)) (1/307): (الصحيح أنه موقوف على ابن عباس كما رواه الحفاظ)، وصححه ابن حجر في ((الفتوحات الربانية)) (4/356)، و الألباني في ((صحيح سنن ابن ماجه)). .[1])
(عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بلا شبہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو یوں کہتے ہوئے سنا:شبرمہ کی طرف سے لبیک ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"شبرمہ کون ہے؟اس نے کہا میرا بھائی یا میرا قریبی رشتے دار ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"کیا تم (پہلے) اپنی طرف سے حج کیاہے؟اس نے کہا: نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (پہلے ) اپنی طرف سے حج کر۔پھر (بعد میں) شبرمہ کی طرف سے حج کرنا)واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: محمد عبد اللہ (6/رجب 1332ھ)
[1] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (1811)سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (2903)صحیح ابن خزیمہ(4/345)صحیح ابن حبان (9/299)امام ابن القطان الفاسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں والرافعون ثقات فلا يضرهم وقف الواقفين له امالانهم حفظوا مالم يحفظوا واما لان الواقفين رووا عن ابن عباس رايه والرافعين رووا عنه روايته (بیان الوھم والا بھام 5/452)نیز امام ابن الملقن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"وقد اعله الطحاوی بالوقف والدارقطنی بالارسال وابن المغلس الظاهري بالتدليس وابن الجوزی بالضعف وغيرهم بالا ضطراب والا نقطاع وقد زال ذلك کله بما او ضحناہ فی الاصل "(خلاصۃ البدرالمنیر :1/345)نیز دیکھیں البدر المنیر 6/35)التلخیص الجبیر (2/488)رواہ الغلیل (4/171)