سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(188) روزے کا فدیہ

  • 22953
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1087

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں  جہاں تک قرآن شریف کو دیکھتا ہوں روزہ رمضان کی بابت مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روزے کا رکھنا افضل و اولیٰ تو بے شک ہے مگر یہ نہیں کہ اس کا فدیہ نہ ہو سکے ۔آیات قرآن ملاحظہ ہوں۔

﴿وَعَلَى الَّذينَ يُطيقونَهُ فِديَةٌ طَعامُ مِسكينٍ...﴿١٨٤﴾... سورة البقرة

اس آیت کی نسبت جتنے اقوال ہیں میری نظر میں ہے (1)"لا"مقدرہے(2)ہمزہ افعال سلب کے لیے ہے(3)فَلْيَصُمْهُ سے منسوخ (قول صحابہ فی البخاری)

تیسرا قول پہلے دونوں کے خلاف ہے کیوں کہ نسخ چاہتا ہے کہ نہ"لا"مقدرہے نہ ہمزہ سلب ہے تاکہ مفہوم مخالف ہوکر نسخ ہو سکے بلکہ وہی معنی ہیں جو متبادر ہیں کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ رکھنے کی صورت  میں ان پر فدیہ واجب ہے روزہ رکھنا اچھا ہے:

وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ ہاں نسخ کا دعوی مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے جس کو "لا"مقدریا ہمزہ سلب کہنے والوں نے بھی گویا تسلیم نہیں کیا۔ پس اگر میں بھی اس کا قائل نہ ہوں تو غالباًکسی بڑے ناقابل معانی جرم کا مرتکب نہیں ہوں گا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزہ رمضان کا بیان سورہ بقرہ رکوع (23)کی پہلی آیت سے شروع ہوتا ہے پہلے اللہ تعالیٰ نے کل مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا:

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُاس میں کسی کو نہ خلاف ہے نہ ہو سکتا ہے کہ كُتِبَ یہاں  فُرِ ضَ کے معنی میں ہے پس معنی یہ ہوئے کہ تم کل مسلمانوں پر روزہ فرض کیا گیا ۔پھر فرمایا أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ روزہ جو تم کل مسلمانوں پر فرض کیا گیا صرف گنتی کے چند روزفرض کیا گیا ۔پھر فرمایا :وہ گنتی کے چند روز کیا ہیں شَهْرُ رَمَضَانَ یعنی ماہ رمضان کے ایام ہیں جو 29یوم ہیں یا زیادہ سے زیادہ 30یوم پس اس آیت سے نہایت واضح طور پر ثابت ہوا کہ ہر سال پورے ماہ رمضان کا روزہ کل مسلمانوں پر فرض کیا گیا پھر فرمایا فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ صیغہ امر ہے جووجوب اور فرضیت کے لیے موضوع ہے۔پس معنی یہ ہوئے کہ جو شخص تم مسلمانوں میں سے اس مہینے میں حاضر و موجود ہو۔ اس پر اس مہینے کا روزہ رکھنا فرض ہے۔

اس آیت سے وہی مضمون ثابت ہوا جو پہلی آیت سے ثابت ہوا تھا کہ ہر سال پورے ماہ رمضان کا روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس تکرار سے فرضیت صوم رمضان کو موکد فرمادیا۔پھر فرمایا:

﴿أُحِلَّ لَكُم لَيلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلىٰ نِسائِكُم ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة

یعنی روزے کی رات میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمھارے لیے حلال کیا گیا ۔رات کی قید سے ثابت ہوا کہ روزے کے دن میں عورت کے پاس جانا حلال نہیں ہے اور جب حلال نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ حرام ہے پس اس آیت سے ثابت ہوا کہ روزے کے دن میں عورت کے پاس جا نا حرام ہے پھر فرمایا :

﴿ فَالـٔـٰنَ بـٰشِروهُنَّ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة

یعنی جب روزے کی رات میں عورتوں کے پاس جا نا تمھارے لیے حلال کردیا گیا تو اب تم روزے کی رات میں اپنی عورتوں سے مباشرت کرو اور صرف مباشرت ہی نہیں بلکہ کھاؤاور پیو بھی۔یعنی کھانا اور پینا بھی روزے کی رات میں تمھارے لیے حلال کردیا گیا ۔یہاں بھی رات کی قید سے معلوم ہوا کہ روزے کے دن میں جس طرح عورت کے پاس جا نا حرام ہے اسی طرح کھانا پینا حرام ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جو چیز حرام ہے اس کا چھوڑدینا فرض ہے۔

پس اس آیت سے ثابت ہوا کہ روزے کے دن میں ان تینوں کاموں کا چھوڑ دینا فرض ہے پھر آگے اس مضمون کو اور بھی واضح کردیا اور فرمایا:

﴿حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة

یعنی روزے کی رات میں جو تمھارے لیے عورت کے پاس جانا اور کھاناپینا حلال کردیا گیا تو یہ سب اس وقت تک ہے کہ رات کی کالی دھاری سے صبح کی سفید دھاری تم کو نمایاں ہوجائے یعنی صبح صادق تم کو نمایاں ہوجائے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ صبح صادق نمایاں ہوتے ہی مذکورہ بالا تینوں کام روزے دار پر حرام ہوجاتے ہیں۔

یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دن شرع میں صبح صادق سے شروع ہوتا ہے۔ پھر فرمایا :

(ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ) یعنی پھر جب رات آجائے تو روزہ ختم کردو رات آتی ہے سورج ڈوبنے سے تو آیت کا مطلب یہ ہواکہ جب سورج ڈوب جائے تو روزہ ختم کردو۔یہاں سے معلوم ہوا کہ رات شرع میں سورج ڈوبنے سے شروع ہوتی ہے اور

"فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ "اور(ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ)سے معلوم ہوا کہ روزہ اسی کا نام ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مذکورہ بالا تینوں کاموں کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر چھوڑ دیں ۔

اس آیت سے روزے کی حقیقت بھی  معلوم ہوگئی اور شرعی دن کی تحدید بھی جس میں روزے دار پر مذکورہ بالا تینوں کام حرام ہوجاتے ہیں کہ وہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک ہے۔

الحاصل ان تمام آیات صوم منقولہ بالا سے نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت کے ساتھ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر سال ہر ماہ رمضان کے ہر دن میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک عورت کے پاس جانے اور کھانے اور پینے کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر چھوڑ دینا ہر مسلمان پر فرض کیا ہے پھر واضح ہوکہ جس طرح کبھی کبھی بعض قوانین سے بعض لوگ مستثنیٰ کر دیے جاتے ہیں اسی طرح اس قانون فرضیت صوم سے بھی بعض لوگ مستثنیٰ کردیے گئے ہیں اور وہ مستثنیٰ مریض و مسافر ہیں پھر مریض و مسافر جو مستثنیٰ کردیے ہیں ان کی قسمیں ہیں ایک وہ مریض و مسافر جو روزہ رکھ ہی نہیں سکتے ہیں ۔اور دوسرے وہ مریض و مسافر جو روزہ رکھ سکتے ہیں مگر فی الجملہ مشقت کے ساتھ اول قسم کی نسبت فرمایا:

"فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ"

یعنی اس قسم کے مریض و مسافر روزہ افطار ہی کر ڈالیں اور جب صحیح و مقیم ہو جائیں تو اپنی صحت و اقامت کے ایام میں اتنے روزے گن کر رکھیں اور اسی قسم کے مریض و مسافر کی نسبت حدیث صحیح میں وارد ہوا ۔

1۔(ليس مِن البِرِّ الصِّيامُ في السَّفَر)[1](رواالشیخان عن جابر مرفوعاً

 (سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے)

2۔وروی ابن ماجہ عن عبدالرحمٰن بن عوف مرفوعاً:

(صَائِمُ رَمَضَانَ فِي السَّفَرِ كَالْمُفْطِرِ فِي الْحَضَرِ )[2]مشکاة باب صوم المسافر ۔

(سفر میں رمضان کاروزہ رکھنے والا حضر میں روزہ چھوڑنے والے  کی طرح ہے)

دوسری قسم کی نسبت فرمایا: " فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ"

نیز فرمایا:

وَأَن تَصُومُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ یعنی اس دوسری قسم کے مریض و مسافر روزہ رکھیں تو یہ ان کے لیے بہتر ہے اور روزہ افطار کریں تو بھی جائز ہے مگر اس صورت میں ان کو فی روزہ ایک مسکین کو کھانا دینا واجب ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1844)صحیح مسلم رقم الحدیث (1115)

[2] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1666)اس کی سند میں انقطاع ہے کیوں کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف نے اپنے والد عبد الرحمٰن بن عوف سے سماع نہیں کیا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصوم ،صفحہ:368

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ