کتاب"ہدایہ السلام" میں لکھا ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صدقہ عید الفطر اپنی جورو کی طرف سے ایک ہو یا چار ہوں اور بڑے لڑکے اور چھوٹے دولتمند لڑکے کی طرف سے مالک مکان پر واجب نہیں ہے اس کی کیا وجہ ہے؟(السائل:ابو محمد اکبر خان ڈاکٹر ،ازدار جلنگ۔
حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ جورو کا صدقہ فطرشوہر پر واجب ہے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،وامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ،وبعض دیگر ائمہ کا مذہب ہے۔فتح الباری(ص:61 چھاپہ دہلی) میں ہے:
"قال مالك والشافعي والليث واحمد واسحاق :تجب (صدقة الفطر) علي زوجها"امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،لیث رحمۃ اللہ علیہ ،احمد رحمۃ اللہ علیہ ،اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ہیں کہ(عورت کا) صدقہ فطر اس کے خاوند کے ذمے واجب ہے اسی طرح جن لوگوں کا خرچ جس شخص پر واجب ہے ان کا صدقہ فطر بھی اسی شخص پر واجب ہے حدیث مذکور یہ ہے:
نافع رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے ،وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ہر غلا وآزاد مردوعورت اور چھوٹے اور بڑے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقہ فطر فرض فرمایا اسی صفحہ میں اثر ذیل بھی ہے،جو حدیث مذکور کا موید ہے:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے پروردہ افراد خانہ خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ،سب کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرتے تھے،حتیٰ کہ اپنے غلام اور اپنی بیویوں کے غلام کی طرف سے بھی۔
اسی صفحہ میں ایک یہ حدیث بھی ہے:
راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زیر کفالت چھوٹے اور بڑے ،آزاد اور غلام کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔"
یہ آخر الذکر حدیث اگرچہ مرفوعاً ضعیف ہے ،جیسا کہ خود دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے:
"رفعه القاسم، وليس بقوى، والصواب موقوف"انتهيقاسم نے اسے مرفوع بیان کیا ہے اور وہ قوی نہیں ہے جب کی صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے۔اس وجہ سے یہ بھی سابق حدیث کی تائید سے خالی نہیں ہے اور سابق حدیث کی مویدات اور بھی ہیں۔
[1] ۔سنن دارقطنی(2/141)
[2] ۔سنن دارقطنی(2/141) علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو تعدد طرق کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔دیکھیں:ارواء الغلیل (3/321)