آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جس نے زمین کے مسلمان مالک سے اجارے یا کھیتی باڑی کے لیے زمین کرائے پر لی۔اس زمین کی زکوۃ زمین کرائے پر لینے اور اس میں کاشت کاری کرنے والے پر ہوگی یاکرائے پر دینے و الے مالک کے ذمے ہوگی؟ نیز جب کوئی مسلمان کسی کافر سے ایسی خراجی زمین خرید لے جس پر ہو(کافر) خراج ادا کرتا تھا کیا اب اس خریدار مسلمان پر خراج اور زکوۃ دونوں واجب ہوں گے یا نہیں؟کیا خراجی زمین سے زکوۃ کے ساقط ہونے کی کوئی ایسی صحیح حدیث وارد ہوئی ہے جس سے حجت پکڑی جاسکے یا نہیں؟
آگاہ رہو کہ کتاب وسنت اجماع اور معقول کے ساتھ عشر ثابت ہے جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
پس عام مفسرین کا یہ موقف ہے کہ اس سے مراد عشر ہے یہ آیت مجمل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس کا بیان ہے:
جو زمین بارش سے سیراب ہو اس میں عشر(دسواں حصہ) ہے اور جسے ڈول یا رہٹ کے ذریعے سیراب کیا جائے اس میں نصف العشر(بیسواں حصہ) ہے۔
کیونکہ عشر پیدا وار میں واجب ہے نہ کہ زمین میں لہذا زمین کی ملکیت اور عدم ملکیت برابر ہے۔پس قرآن وحدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ زکوۃ کا تعلق اس شخص کے ساتھ ہے جس کی ملکیت میں کھیتی باڑی اُگتی ہے۔لہذا جسے زمین کے فوائد(پیداوار) حاصل ہوئے اس کے ذمے زکوۃ ہے۔خواہ کاشت کرنےو الا زمین کا مالک ہو یا اس نے زمین کرائے پر دے رکھی ہو اور عاریتاً لی ہو یا کوئی اور صورت ہو،در مختار کے مصنف نے کہا ہے عشر زمین کراے پر دینے والے کے ذمے ہے اور ان دونوں کے نزدیک کرائے پر لینے والے کے زمے ہے حاوی میں ہے کہ ان دونوں کا قول ہی ہم اختیار کریں گے۔
فتح القدیر کے مصنف نے لکھا ہے بلاشبہ عشر پیداوار کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ زمین کرائے پر لینے (اور اس میں کاشت کاری کرنے) والے کے ذمے ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ میں ہے جمہور جیسے اما مالک رحمۃ اللہ علیہ ۔شافعی رحمۃ اللہ علیہ ۔اور احمد رحمۃ اللہ علیہ ۔وغیرہ ہیں کے نزدیک عشر اس شخص پر واجب ہے جو اپنی ملکیت میں کھیتی باڑی کرتا ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
پس آیت کا پہلا حصہ تجارت کی زکوۃ کو واضح کرتا ہے اور دوسرا حصہ اس پیداوار پر زکوۃ کو بیان کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نکالی ہے (پس جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیداوار نکالی ہے اسی کے ذمے عشر ہے،جب وہ کاشتکاری کی غرض سے زمین کرائے پر لے)
پس(زمین)کرائے پر لینے والے کے ذمے عشر ہے۔(ان تمام علماء کے نزدیک اور اسی طرح قاضی ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔زمین کرائے پر دینے والے کے ذمے عشر ہے۔جب وہ نصف پیداوار کے عوض زمین کا شتکاری کے لیے دے۔مالک کے حصے میں جتنی پیداوار آئے اس کے ذمے اس کا عشر ہوگا۔جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے نکالی ہے جس کو کوئی زمین عاریتاً دی گئی یا اسے الاٹ کردی گئی یا زمین اس کی نگرانی میں دے دی گئی تو اگر وہ اس میں کاشتکاری کرے تو اس کے ذمے عشر ہوگا اور اگر وہ اسے کرائے پر دے دے تو کرائے پر لینے والے کے ذمے عشر ہوگا اور اگر وہ بٹائی پر کاشتکاری کے لیے کس کو دے تو عشر ان دونوں کے ذمے ہوگا۔
ان ائمہ کی دلیل یہ ہے کہ عشر کھیتی باڑی کا حق ہے۔لہذا ان کے نزدیک یہ موقف ہے کہ عشر اور خراج جمع ہوں گے،کیونکہ عشر پیداوار پر ہے اور اس کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں اور خراج زمین پر ہے اور اس کے مستحق مال ہی کے مستحق لوگ ہیں۔لہذا وہ دو مختلف سببوں کے ساتھ دو قسم کے مستحقوں کے حق ہیں،پس وہ دونوں اکھٹے ہوجاتے ہیں۔جس طرح اگر وہ کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کردے تو اس کے ذمے دیت ہوگی جو مقتول کے ورثہ کو دی جائے گی اور اس کے ذمے کفارہ بھی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔اسی طرح اگر وہ احرام میں کسی مملوکہ شکار کو قتل کردے تو اسے اس جانور کے مالک کو اس کے بدلے میں اس جیسا جانور دینا ہوگا اور اس پر اللہ تعالیٰ کے حق کے طور پر جزا وبدلہ بھی ہوگا۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :عشر زمین کا حق ہے پس اس زمین پر دو حق جمع نہیں ہوں گے،جمہور نے جس چیز کے ساتھ دلیل پکڑی ہے وہ یہ ہے کہ خراج اس زمین میں واجب ہے جو زمین کا شتکاری کے لائق ہے خواہ اس میں کاشتکاری کی جائے یا نہ کی جائے۔رہا عشر تو وہ صرف پیدا وار پر واجب ہے۔ اور درج ذیل مرفوع حدیث:
"عشر وخراج جمع نہیں ہوسکتے"
یہ روایت اہل حدیث کے اتفاق سے جھوٹی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ہدایہ کی احادیث کی تخریج میں فرمایا ہے:حدیث
مسلمان پر کسی زمین میں عشر اور خراج اکھٹے نہیں ہوسکتے۔
اسے ابن عدی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
(مسلمان کے ذمے خراج وعشر جمع نہیں ہوسکتے) اس کی سند میں یحییٰ بن عنبسہ راوی ہے۔جوضعیف ہے۔امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے:وہ کذاب راوی ہے یہ کلام شعبی اور عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحیح ثابت ہے،جس کو اب ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔عمر بن عبدالعزیز سے صحیح ثابت ہے کہ انھوں نے اس شخص کو کہا جس نے کہا تھا کہ میرے ذمے تو خراج ہے:خراج توزمین پر ہے اور عشر پیداوار پر۔اس روایت کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے یحییٰ بن آدم کے واسطے سے اپنی کتاب"الخراج" میں بیان کیا ہے ۔اس میں یہ زہری کے واسطے سے ہے مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور اس کے بعد زمین پر معاملہ کرتے تھے،زمین کرایہ پر لیتے تھے اور اس کی پیداوار سے زکوۃ ادا کرتے تھے۔پس ہم اس زمین کو اسی قبیل سے گمان کرتے ہیں۔اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی درج ذیل حدیث مروی ہے:
"فيما سقت السماء العشر"(متفق علیہ) "بارش سے سیراب ہونے والی زمین پر عشر ہے"اور اس کے عموم سے استدلال کیا جاتا ہے۔
زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث ہدایہ کی تخریج میں کہا ہے:ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے عشر اور خراج کے درمیان جمع میں عموم حدیث کے ساتھ شافعی کے لیے استدلال کیا ہے۔چنانچہ عبداللہ بن عمری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمین پر عشر مقرر کیا ہے جو زمین بارش اور چشموں سے سیراب ہوتی ہو یا وہ نمی والی زمین ہو۔رہی وہ زمین جس کو کھینچ کر پانی پلایاجائے اس میں بیسواں حصہ ہے۔اس روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرنے میں متفرد ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ خراجی اور غیر خراجی زمین کے بارے میں عام ہے۔شیخ تقی الدین نے امام میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے لیے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے یحییٰ بن آدم سے بیان کیا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ہم کو سفیان بن سعید نے بیان کیا ہے انھوں نے عمرو بن میمون بن مہران سے روایت کیا ہے انھوں نے کہا ہے:میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے اس مسلمان کے بارے میں سوال کیا کہ جس کو ملکیت میں خراج کی زمین ہے ،اس سے زکوۃ کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے:مجھ پر تو صرف خراج ہے تو عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:خراج تو زمین پر ہے،جب کہ عشر پیداوار پر۔
نیز امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے یحییٰ سے روایت کیا ہے انھوں نے کہا کہ ہمیں ابن المبارک نے یونس سے بیان کیا ،انھوں نے کہا میں نے زہری رحمۃ اللہ علیہ سے اس زمین کی زکوۃ کے بارے میں سوال کیا جس پر خراج ہے تو انھوں نے جواب دیا:مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور اس کے بعد زمین کے بارے میں معاملہ کرتے رہے،وہ زمین کرائے پر لیتے تھے اور اس کی پیداوار سے زکوۃ ادا کرتے تھے۔لہذا ہم اس زمین کو اس جنس سے گمان کرتے ہیں۔انتھیٰ۔
جناب شیخ(زیلعی رحمۃ اللہ علیہ ) نے فرمایا:پہلا فتوی عمر بن عبدالعزیز کا ہے اور دوسری روایت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً ثابت ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث ہدایہ کی تخریج میں کہا ہے:امام ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے زبیر بن عدی کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ایک کسان نے اسلام قبول کیا تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اگر تو اپنی زمین میں رہے گا تو ہم تیرے اوپر سے جزیہ ہٹا دیں گے اور وہ تیری زمین سے لیں گے،پھر اگر تم اپنی زمین سے نقل مکانی اختیار کرلوگے تو ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں نیز محمد بن عبید الثقفی کے واسطے سے عمرو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا:جب اس نے اسلام قبول کیا،درآنحالیکہ اس کے پاس زمین تھی تو ہم نے اس پر سے جزیہ ہٹا دیا اور ہم نے اس زمین کا اخراج وصول کیا۔
مخفی نہ رہے کہ زکوۃ فقراء کا حق ہے جیسا کہ پہلے گزرا اور خراج زمین پر لازم ہے جو اہل فئی کا حق ہے۔لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ فقراء کا حق ساقط ہوجائے اور اہل فئی کا حق باقی رہے ۔کوئی صاحب انصاف اس کو قبول نہیں کرتا ہے کیونکہ جب کفر کی ذلت کی وجہ سے اس پر واجب جزیہ اس سے ہٹا دیاگیا توبلاشبہ اسے زکوۃ کا مکلف ٹھہرایا جائے گا جو کہ فقراء کا حق ہے اور ان ارکان اسلام میں سے ایک ہے جن کااقرار کرنے اور ان کے ادا کرنے کے بغیر اسلام صحیح نہیں ہوتا۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی وہ حدیث جو پہلے گزر چکی ہے :
وہ بھی ہمارے اس موقف کی تائید کرتی ہے لہذا اسلام اور فقرء کا حق لازم کیے بغیر کیسے چھوڑا جاسکتا ہے؟یہ بات تو صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جس نے دلائل شرعیہ کا ملاحظہ نہ کیا ہو جو ہر صاحب انصاف پر مخفی نہیں ہے۔واللہ اعلم۔
تحفۃ المحتاج میں ہے:زمین کو کاشت کرنے والے پر خراج اور زکوۃ کی اجرت ہے ان دونوں کا وجوب زکوۃ کو ساقط نہیں کرتاہے۔کیوں کہ دونوں کی جہت مختلف ہے۔ان دونوں کے اجتماع کے لیے خبر نافی اجماعاً ضعیف بلکہ باطل ہے،وہ اس زمین کی پیداوار سے دونوں کو ادا کرے گا نہ سارے کی زکوۃ نکالنے کے بعد "المجموع"میں ہے:اگر وہ خراجی زمین کرائے پر لے تو اس کا خراج مالک کے ذمے ہوگا۔زمین کرائے پر دینے والے کے لیے اس کی پیداوار سے ،اس کی زکوۃ ادا کرنے سے پہلے اس کاکرایہ لینا حلال نہیں ہے۔پس اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ زکوۃ کی مقدار کا مالک نہیں بنے گا۔اس کے ہاتھ میں جو پیداوار ہوگی اس سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ لیا جائے گا۔جس طرح وہ اگر ایسی زکوۃ والی زمین خرید لے جس کی زکوۃ نہیں نکالی گئی۔
[1] ۔مسند احمد(1/145) ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہے کیوں کہ اس کی سند میں محمد بن سالم الھمدانی ضعیف ہے۔
[2] ۔رد المختار(2/325)
[3] ۔رد المختار علی الدر المختار(2/334)
[4] ۔فتح القدیر (2/150)
[5] ۔مجموع الفتاویٰ(25/55)
[6] ۔الدرایۃ لابن حجر(2/132)
[7] ۔نصب الرایہ(3/442)
[8] ۔ادرایۃ لابن حجر(2/132)
[9] ۔تحفۃ المحتاج کتاب الزکاۃ باب زکاۃ النبات(ص:242)