سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(185) زمین کا اخراج اور زکوۃ مالک اور کرایہ دار میں سے کس کے ذمے ہے؟

  • 22950
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2086

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ما قولكم ايها  العلماء رحمكم الله فيمن استاجر ارضا من مالكها المسلم اجارة او مزارعة هل الزكاة علي العامل في الارض وهو المستاجر اوعلي مالك الارض وهو الموجر؟ وهل اذا كانت الارض خراجية واشتر اها المسلم من الكافر الذي كان عليه الخر اج هل كان عليه الخراج والزكاة معا او لا؟وهل وردفي سقوط الزكاة اذا كانت خراجية حديث صحيح يحتج به ام لا؟بینوا توجروا۔

آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا  خیال ہے؟ جس نے زمین کے مسلمان مالک سے اجارے یا کھیتی باڑی کے لیے زمین کرائے پر لی۔اس زمین کی زکوۃ زمین کرائے پر لینے اور اس میں کاشت کاری کرنے والے پر ہوگی یاکرائے پر دینے و الے مالک کے ذمے ہوگی؟ نیز جب کوئی مسلمان کسی کافر سے ایسی خراجی زمین خرید لے جس پر ہو(کافر) خراج ادا کرتا تھا کیا اب اس خریدار مسلمان پر خراج اور زکوۃ دونوں   واجب ہوں گے یا  نہیں؟کیا خراجی زمین سے زکوۃ  کے ساقط ہونے کی کوئی ایسی صحیح حدیث وارد ہوئی ہے جس سے حجت پکڑی جاسکے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
والله الموفق لااصابه الصواب اعلم ان العشرثبت بالكتاب والسنة والاجماع والمعقول اما الكتاب فقا الله تعاليٰ " وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ
" فان عامة المفسرين علي انه العشر وهو مجمل بينه قوله صلي الله عليه وسلم ((ماسقت السماء ففيه العشر وما سقي بغرب او د الية ففيه نصف العشر [1] ولان العشر يجب في الخارج لا في الارض فكان ملك الارض وعدمه سواء انتهي كذا في رد المختار علي الدر المختفار للعلامة الشامي رحمة الله عليه [2] فضاهر القرآن والحديث ان الزكاة  تتعلق بمن نبت الزرع في ملكه فمن استخرج فوائد الارض فعليه الزكاة سواء كان الزراع المالك اوالمستاجر او للمستعير او غير ذلك قال في الدر المختار العشر علي الموجر وعندهما علي السمتاجر قال في الحاوي :وبقولهما ناخذ انتهي[3]
قال في فتح القدير ان  العشر منوط بالخارج وهو للسمتاجر عليه انتهي[4] وفي فتاويٰ شيخ الاسلام ابن تيمية رحمة الله عليه واما العشر فهو عند الجمهور كمالك والشافعي واحمد وغيرهم علي من نبت الزرع علي ملكه كما قال الله تعاليٰ :
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ ...﴿٢٦٧﴾... سورة البقرة
فالاول يتضمن زكاة التجارة والثاني يتضمن زكاة ما اخرج الله لنا من الارض فمن اخرج الله له الحب فعليه العشر فاذا الستاجر ارضا ليزر عها )فالعشر علي المستاجر )عند هؤلاء العلماء كلهم وكذلك عند ابي يوسف ومحمد وقال الامام ابو حنيفه رحمة الله عليه العشر علي الموجر واذا زاع ارضا علي النصف فما حصل للمالك فعليه عشره وما حصل للعامل فعليه عشره علي كل واحد منهما عشر مااخرجه الله له ومن اعير ارضا او اقطعها اوكانت موقوفة علي عينه فان زرع فيها زرعا فعليه العشر وان آجرها فالعشر علي المستاجر ان زارعها فالعشر بينها ودليل هؤلاء الائمة ان العشر حق الزرع ولهذا كان عندهم انه يجتمع العشر والخراج لان العشر حق الزرع ومستحقه اهل الزكاة والخراج حق الارض ومستحقه اهل الفي فهما حقان لمستحقين بسبين مختلفين فاجتمعا كما لو قتل مسلما خطا فعليه الدية لاهله والكفارة حق الله وكما لو قتل صيدا مملوكا وهو محرم فعليه البدل لمالكه وعليه الجزاء حق الله
وابوحنيفه رحمة ا لله عليه ٰيقول العشر حق الارض فلا يجتمع عليها حقان ومما احتج به الجمهور ان الخراج يجب في الارض التي يمكن ان تزرع سواء زرعت ام لم تزرع واما  العشر فلا يجب الا في الزرع والحديث المرفوع:
((لا يجتمع العشر والخراج)) كذب باتفاق اهل الحديث[5] انتهي كلام الشيخ الاسلام ابن تيميه رحمة الله عليه
وقال الحا‎فظ ‎‎ابن حجر في تخريج احاديث الهداية حديث لا يجتمع عشر وخراج في الارض علي مسلم)  رواه ابن عدي عن ابن مسعود رضي الله تعاليٰ عنه رفعه بلفظ (لا يجتمع علي مسلم خراج وعشر) وفيه يحيٰٰ بن عنسبة وهو واه وقال الدارقطني هو كذاب وصح هذا الكلام عن الشعبي وعن عكرمة اخرجهما ابن ابي شيبة وصح عن عمر بن عبدالعزيز انه قال لمن قال انما علي الخراج الخراج علي الارض والعشر علي الحب اخرجه البيهقي من طريق يححيٰ بن آدم في الخراج له وفيها عن الزهري ولم يزل المسلمون علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم وبعده يعاملون علي الارض ويستكرونها ويودون الزكاة عما يخرج منها فنري هذه الارض علي نحوذلك وفي الباب حديث ابن عمر:(( فيما سقت السماء العشر)) متفق عليه ويستدل بعمومه انتهي [6]
وقال الزيلي في التخريج احاديث الهدايه واستدل ابن الجوزي للشافعي في الجمع بين العشر والخراج بعموم الحديث عن ابن عمر عن رسول  الله صلي الله عليه وسلم انه سن فيما سقت السماء والعيون او كان عشر يا العشر وفيما سقي بالنضح نصف العشر انفرد به البخاري
قال: وهذا عام في الارض الخراجية وغيرها واستدل الشيخ تقي الدين في الامام للشافعي بما اخرجه البيهقي عن يحييٰ بن آدم حدثنا سفيان بن سعيد عن عمرو بن ميمون بن مهران قال:سالت عمر بن عبدالعزيز عن المسلم تكون في يده ارض الخراج فيسال الزكاة فيقول انما علي الخراج؟فقال الخراج علي الارض والعشر علي الحب
واخرج ايضا عن يحييٰ قال:حدثنا ابن المبارك عن يونس قال سالت الزهري عن زكاة الارض التي عليها الخراج فقال لم يزل المسلمون علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم وبعده يعاملون علي الارض ويستكرونها ويودون الزكاة عما يخرج منها فنري هذه الارض علي نحوذلك انتهي
قال الشيخ الاول فتويٰ بن عبدالعزيز والثاني فيه ارسال عن النبي صلي الله عليه وسلم انتهي كلام الزيلعي [7]
وقال الحافظ ابن حجر رحمة الله عليه في تخريج الاحايث في الهدايه  روي ابن شيبه وعبدالرزاق من طريق الزبير بن عدي ان دهقانا اسلم علي عهد علي رضي الله عنه فقال علي رضي الله عنه اذا اقمت بارضك رفعنا الجزية عن راسك واخذناها من ارضك فان تحولت فننحن احق بها ومن طريق محمد بن عبيد الثقفي عن عمرو علي قال :اذا سلم وله ارض وضعنا الجزية واخذنا خراجها انتهي[8]
ولا يخفي ان الزكاة حق الفقراء كما تقدم والخراج حق الارض ومستحقه اهل الفي فكيف يسقط حق  الفقراء ويبقي حق اهل الفي هذا لا يقبلة ذو انصاف لانه اذا رفعت عنه الجزية والواجبة بسبب ذل الكفر فلاشك انه يكلف بالزكاة والجبة التي هي حق الفقراء واحد اركان الاسلام التي لا يصح الا بالاقراربها وادائها وحديث ابن عمر السابق:
((فيما سق  السماء العشر)) متفق عليه
يوئيد ما قلناه فكيف يترك حق الاسلام وحق الفقراء ولا يلزم بذالك فان هذا لا يقوله الا من لم يلاحظ الدلائل الشرعية التي لا تخفيٰ علي كل ذي انصاف والله اعلم تحفة المحتاج شرح المنهاج میں ہے۔
وعلي زارع ارض فيها خراج واجرة الزكاة ولا يسقطها وجوبهما لا ختلاف الجهة والخبر النافي لا جتماعهما ضعيف اجماعا بل باطل ولا يوديهما من حبها لا بعد اخراج زكاة الكل وفي المجموع لو آجر الخراجية فالخراج علي المالك ولا يحل لموجر ارض اخذ اجرتها من حبها قبل اداء زكاته فان فعل لم يملك قدر الزكاة فيؤخذ منه عشر ما بيده او نصفه كما لو الشتري زكاويالم تخرج زكاته[9]

آگاہ رہو کہ کتاب وسنت اجماع اور معقول کے ساتھ عشر ثابت ہے جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَءاتوا حَقَّهُ يَومَ حَصادِهِ ...﴿١٤١﴾... سورة الانعام

پس عام مفسرین کا یہ موقف ہے کہ اس سے مراد عشر ہے یہ آیت مجمل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ ارشاد اس کا بیان ہے:

"ما سقت السماء ففيه العشر وما سقي بغرب او دالية ففه نصف العشر"

جو زمین بارش  سے سیراب ہو اس میں عشر(دسواں حصہ) ہے اور جسے ڈول یا رہٹ کے ذریعے سیراب کیا جائے اس میں نصف العشر(بیسواں حصہ) ہے۔

کیونکہ عشر پیدا وار میں واجب ہے نہ کہ زمین میں لہذا زمین کی ملکیت اور عدم ملکیت برابر ہے۔پس قرآن وحدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ زکوۃ کا  تعلق اس شخص کے ساتھ ہے جس کی ملکیت میں کھیتی باڑی اُگتی ہے۔لہذا جسے زمین کے فوائد(پیداوار) حاصل ہوئے اس کے ذمے زکوۃ ہے۔خواہ کاشت کرنےو الا زمین کا مالک ہو یا اس نے زمین کرائے پر دے رکھی ہو اور عاریتاً لی ہو یا کوئی اور صورت ہو،در مختار کے مصنف نے کہا ہے عشر زمین کراے پر دینے والے کے ذمے ہے اور ان دونوں کے نزدیک کرائے پر لینے والے کے زمے ہے حاوی میں ہے کہ ان دونوں کا قول ہی ہم اختیار کریں گے۔

فتح القدیر کے مصنف نے لکھا ہے بلاشبہ عشر پیداوار کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ زمین کرائے پر لینے (اور اس میں کاشت کاری کرنے) والے کے ذمے ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کے  فتاویٰ میں ہے جمہور جیسے اما مالک رحمۃ اللہ علیہ ۔شافعی رحمۃ اللہ علیہ ۔اور احمد رحمۃ اللہ علیہ ۔وغیرہ ہیں کے نزدیک عشر اس شخص پر واجب ہے جو اپنی ملکیت میں کھیتی باڑی کرتا ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ ...﴿٢٦٧﴾... سورة البقرة

پس آیت کا پہلا حصہ تجارت کی زکوۃ کو واضح کرتا ہے اور دوسرا حصہ اس  پیداوار پر زکوۃ کو بیان کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نکالی ہے (پس جس کے لیے اللہ  تعالیٰ نے پیداوار نکالی ہے اسی کے ذمے عشر ہے،جب وہ کاشتکاری کی غرض سے زمین کرائے پر لے)

پس(زمین)کرائے پر لینے والے کے ذمے عشر ہے۔(ان تمام علماء کے نزدیک اور اسی طرح قاضی ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا ہے۔زمین کرائے پر دینے والے کے ذمے عشر ہے۔جب وہ نصف پیداوار کے عوض زمین کا شتکاری کے لیے دے۔مالک کے حصے میں جتنی پیداوار آئے اس کے ذمے اس کا عشر ہوگا۔جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے نکالی ہے جس کو کوئی زمین عاریتاً دی گئی یا اسے الاٹ کردی گئی یا زمین اس کی نگرانی میں دے دی گئی تو اگر وہ اس میں کاشتکاری کرے تو اس کے ذمے عشر ہوگا اور اگر وہ اسے کرائے پر دے دے تو کرائے پر لینے والے  کے ذمے عشر ہوگا اور اگر وہ بٹائی پر کاشتکاری کے لیے کس کو دے تو عشر ان دونوں کے ذمے ہوگا۔

ان ائمہ کی دلیل یہ ہے کہ عشر کھیتی باڑی کا حق ہے۔لہذا ان کے نزدیک یہ موقف ہے کہ عشر اور خراج  جمع ہوں گے،کیونکہ عشر پیداوار پر ہے اور اس کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں اور خراج زمین پر ہے اور اس کے مستحق مال ہی کے مستحق لوگ ہیں۔لہذا وہ دو مختلف سببوں کے ساتھ دو قسم کے مستحقوں کے حق ہیں،پس وہ دونوں اکھٹے ہوجاتے ہیں۔جس طرح اگر وہ کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کردے تو اس کے ذمے دیت ہوگی جو مقتول کے ورثہ کو دی جائے گی اور اس کے ذمے کفارہ بھی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔اسی طرح اگر وہ احرام میں کسی مملوکہ شکار کو قتل کردے تو اسے اس جانور کے مالک کو اس کے بدلے میں اس جیسا جانور دینا ہوگا اور اس پر اللہ تعالیٰ کے حق کے طور پر جزا وبدلہ بھی ہوگا۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں :عشر زمین کا حق ہے پس اس زمین پر دو حق جمع نہیں ہوں گے،جمہور نے جس چیز کے ساتھ دلیل پکڑی ہے وہ یہ ہے کہ خراج اس زمین میں واجب ہے جو زمین کا شتکاری کے لائق ہے خواہ اس میں کاشتکاری کی جائے یا نہ کی جائے۔رہا عشر تو وہ صرف پیدا وار پر واجب ہے۔ اور درج ذیل مرفوع حدیث:

"لا يجتمع العشر والخراج"

"عشر وخراج جمع نہیں ہوسکتے"

یہ روایت اہل حدیث کے اتفاق سے جھوٹی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے ہدایہ کی احادیث کی تخریج میں فرمایا ہے:حدیث

"لا يجتمع العشر والخراج في  ارض علي مسلم"

مسلمان پر کسی زمین میں عشر اور خراج اکھٹے  نہیں ہوسکتے۔

اسے ابن عدی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے مرفوعا ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

"لا يجتمع علي مسلم" والخراج والعشر"

(مسلمان کے ذمے خراج وعشر جمع نہیں ہوسکتے) اس کی سند میں یحییٰ بن عنبسہ راوی ہے۔جوضعیف ہے۔امام دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے:وہ کذاب راوی ہے یہ کلام شعبی اور عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی صحیح ثابت ہے،جس کو اب ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔عمر بن عبدالعزیز سے صحیح ثابت ہے کہ انھوں نے اس شخص کو کہا جس نے کہا تھا کہ میرے ذمے تو خراج ہے:خراج توزمین پر ہے اور عشر  پیداوار پر۔اس روایت کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے یحییٰ بن آدم کے واسطے سے اپنی کتاب"الخراج" میں بیان کیا ہے ۔اس میں یہ زہری کے واسطے سے ہے مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں اور اس کے بعد زمین پر معاملہ کرتے تھے،زمین کرایہ پر لیتے تھے اور اس کی پیداوار سے زکوۃ ادا کرتے تھے۔پس ہم اس زمین کو اسی قبیل سے گمان کرتے ہیں۔اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے بھی درج ذیل حدیث مروی ہے:

"فيما سقت السماء العشر"(متفق علیہ) "بارش سے سیراب ہونے والی زمین پر عشر ہے"اور اس کے عموم سے استدلال کیا جاتا ہے۔

زیلعی رحمۃ اللہ علیہ  نے احادیث ہدایہ کی تخریج میں کہا ہے:ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ  نے عشر اور خراج کے درمیان جمع میں عموم حدیث کے ساتھ شافعی کے لیے استدلال کیا ہے۔چنانچہ عبداللہ بن عمری رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس زمین پر عشر مقرر کیا ہے جو زمین بارش  اور چشموں سے سیراب ہوتی ہو یا وہ نمی والی زمین ہو۔رہی وہ زمین جس کو کھینچ کر پانی پلایاجائے اس میں بیسواں حصہ ہے۔اس روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  بیان کرنے میں متفرد ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ خراجی اور غیر خراجی زمین کے بارے میں عام ہے۔شیخ تقی الدین نے امام میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے لیے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  نے یحییٰ بن آدم سے بیان کیا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ہم کو سفیان بن سعید نے بیان کیا ہے انھوں نے عمرو بن میمون بن مہران سے روایت کیا ہے انھوں نے کہا ہے:میں نے عمر بن عبدالعزیز  رحمۃ اللہ علیہ  سے اس مسلمان کے بارے میں سوال کیا کہ جس کو ملکیت میں خراج کی زمین ہے ،اس سے زکوۃ کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے:مجھ پر تو صرف خراج ہے تو عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:خراج تو زمین پر ہے،جب کہ عشر پیداوار پر۔

نیز  امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے یحییٰ سے  روایت کیا ہے انھوں نے کہا کہ ہمیں ابن المبارک نے یونس سے بیان کیا ،انھوں نے کہا میں نے زہری رحمۃ اللہ علیہ  سے اس زمین کی زکوۃ کے بارے میں سوال کیا جس پر خراج ہے تو انھوں نے جواب دیا:مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے دور میں اور اس کے بعد زمین کے بارے میں معاملہ کرتے رہے،وہ زمین کرائے پر لیتے تھے اور اس کی پیداوار سے زکوۃ ادا کرتے تھے۔لہذا ہم اس زمین کو اس جنس سے گمان کرتے ہیں۔انتھیٰ۔

جناب شیخ(زیلعی رحمۃ اللہ علیہ ) نے فرمایا:پہلا فتوی عمر بن عبدالعزیز کا ہے اور دوسری روایت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے مرسلاً ثابت ہے۔حافظ  ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے احادیث ہدایہ کی تخریج میں کہا ہے:امام ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق  رحمۃ اللہ علیہ  نے زبیر بن عدی کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے دور میں ایک کسان نے اسلام قبول کیا تو علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے کہا:اگر تو اپنی زمین میں رہے گا تو ہم تیرے اوپر سے جزیہ ہٹا دیں گے اور وہ تیری زمین سے لیں گے،پھر اگر تم اپنی زمین سے نقل مکانی اختیار کرلوگے تو ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں نیز محمد بن عبید الثقفی کے واسطے سے عمرو علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا:جب اس نے اسلام قبول کیا،درآنحالیکہ اس کے پاس زمین تھی تو ہم نے اس پر سے جزیہ ہٹا دیا اور ہم نے اس زمین کا اخراج وصول کیا۔

مخفی نہ رہے کہ زکوۃ فقراء کا حق ہے جیسا کہ پہلے گزرا اور خراج زمین پر لازم ہے جو اہل فئی کا حق ہے۔لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ فقراء کا حق ساقط ہوجائے اور اہل فئی کا حق باقی رہے ۔کوئی صاحب انصاف اس کو قبول نہیں کرتا ہے کیونکہ جب کفر کی ذلت کی وجہ سے اس پر واجب جزیہ اس سے ہٹا دیاگیا توبلاشبہ اسے زکوۃ کا مکلف ٹھہرایا جائے گا جو کہ فقراء کا حق ہے اور ان ارکان اسلام میں سے ایک ہے جن کااقرار کرنے اور ان کے ادا کرنے کے بغیر اسلام صحیح نہیں ہوتا۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے مروی وہ حدیث جو پہلے گزر چکی ہے :

فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ "(متفق علیه) "

وہ بھی ہمارے اس موقف کی تائید کرتی ہے لہذا اسلام اور  فقرء کا حق لازم کیے بغیر کیسے چھوڑا جاسکتا ہے؟یہ بات تو صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جس نے دلائل شرعیہ کا ملاحظہ نہ کیا ہو جو ہر صاحب انصاف پر مخفی نہیں ہے۔واللہ اعلم۔

تحفۃ المحتاج میں ہے:زمین کو کاشت کرنے والے پر خراج اور زکوۃ کی اجرت ہے ان دونوں کا وجوب زکوۃ کو ساقط نہیں کرتاہے۔کیوں کہ دونوں کی جہت مختلف ہے۔ان دونوں کے اجتماع کے لیے خبر نافی اجماعاً ضعیف بلکہ باطل ہے،وہ اس زمین کی پیداوار سے دونوں کو ادا کرے گا نہ سارے کی زکوۃ نکالنے کے بعد "المجموع"میں ہے:اگر وہ خراجی زمین کرائے پر لے تو اس کا خراج مالک کے ذمے ہوگا۔زمین کرائے پر دینے والے کے لیے اس کی پیداوار سے ،اس کی زکوۃ ادا کرنے سے پہلے اس کاکرایہ لینا حلال نہیں ہے۔پس اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ زکوۃ کی مقدار کا مالک نہیں بنے گا۔اس کے ہاتھ میں جو پیداوار ہوگی اس سے دسواں حصہ یا  بیسواں حصہ لیا جائے گا۔جس طرح وہ اگر ایسی زکوۃ والی زمین خرید لے جس کی زکوۃ نہیں نکالی گئی۔


[1] ۔مسند احمد(1/145) ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہے کیوں کہ اس کی سند میں محمد بن سالم الھمدانی ضعیف ہے۔

[2] ۔رد المختار(2/325)

[3] ۔رد المختار علی الدر المختار(2/334)

[4] ۔فتح القدیر (2/150)

[5] ۔مجموع الفتاویٰ(25/55)

[6] ۔الدرایۃ لابن حجر(2/132)

[7] ۔نصب الرایہ(3/442)

[8] ۔ادرایۃ لابن حجر(2/132)

[9] ۔تحفۃ المحتاج کتاب الزکاۃ باب زکاۃ النبات(ص:242)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الزکاۃ والصدقات ،صفحہ:360

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ