شریعت میں جو عشر مقرر ہے آیا وہ سرکاری مالیہ کاٹ کرادا کیا جائے یا مالیہ سرکاری اس میں شمار کیا جائے؟جواب مدلل قرآن وحدیث سے ہو۔
مالیہ سرکاری دو طرح کا ہے ایک زمین کا ،ایک پانی کا،زمین کا مالیہ کاٹ کر عشر دے،پانی کا مالیہ کاٹنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کی وجہ سے بجائے د سویں حصے کے بیسواں حصہ دے،کیونکہ نہر کا پانی قیمتاً آیا ہے،گویا ایسا ہوگیا جیسے کنویں کا پانی۔کاٹنے کی صورت یہ ہے کہ زمین کا تمام غلہ اگرنصاب کو پہنچ جائے تو اس سے پہلے اتنے دانے الگ کرلیے جائیں جتنوں سے یہ مالیہ پورا ہوجائے اس کے بعد عشر نکالا جائے۔حدیث میں ہے:
(رواہ الشافعی مشکوۃ ص:149)
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جس مال میں زکوۃ خلط ملط ہوجائے تو وہ(زکوۃ) اس کوتباہ کریتی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہواکہ زکوۃ کا تعلق مال سے ہے اور قرآن مجید میں بھی ہے کہ پکنے کے دن کھیتی کا حق دو۔[1]
اس آیت میں عشر کھیتی کا حق کہا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عشر کا تعلق کھیتی سے ہے،پس جتنی کھیتی اس کے قبضہ میں ہے،اسی کی زکوۃ اس کے ذمہ ہوگی،جتنی مالیے میں گئی،وہ اس کے قبضہ میں نہیں،اس لیے اس کی زکوۃ اسکے ذمہ نہیں پڑے گی،اس کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص کے پاس سو روپیہ ہے ان سے پچاس چوری چلے گئے تو وہ باقی پچاس کی زکوۃ دے گا نہ کہ سو کی۔یہی فتویٰ عبداللہ صاحب روپڑی کا لکھا ہواہے۔[2]
[1] ۔دیکھیں (سورۃ الانعام آیت۔141)
[2]۔دیکھیں ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث(18/7) فتاویٰ علمائے حدیث(7/141)