سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(179) مالِ تجارت میں زکوۃ کا مسئلہ

  • 22944
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 654

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مالِ تجارت میں زکوۃ یا نہیں؟صحیح مسلک سے مطلع فرمائیں۔(المستفتی:بہادر خان صوبہ دار،صدر بازار بریلی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح مسلک اس باب میں جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے،یہی ہے کہ مال تجارت میں زکوۃ ہے۔اس وقت صرف ایک مرفوع حدیث پر اکتفا کرتا ہوں اور وہ یہ ہے :

"عن سمرة بن جندب رضي الله عنه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يامرنا ان نخرج الصدقة من الذي نعد للبيع"[1](رواه ابو داود)

سمرہ بن جندب رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جو  مال ہم تجارت کے لیے تیار کریں ،اس سے صدقہ(زکوۃ) دیا کریں۔

اس باب میں اور روایات مرفوع اور موقوف بھی ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم۔


[1] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(1562)اس کی سند میں جعفر بن سعد اور خبیب بن سلیمان ضعیف ہیں۔امام ہیثمی فرماتے ہیں۔وفی اسناد ضعف( مجمع الزوائد 3/69) البتہ ایک حدیث نبوی کے ان الفاظ"وأدوا زكاة اموالكم"سنن ترمذی رقم الحدیث(616) سے واضح ہوتا  ہے کہ ہر قسم کے مال میں زکوۃ دینا  ضروری ہے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الزکاۃ والصدقات ،صفحہ:355

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ