ایک شخص نے ہزار روپیہ دے کر دس گھماؤ زمین رہن لی ہے،تو آیا اس ہزار روپیہ کی زکوۃ بعد حولانِ حول کےاس شخص پر فرض ہے کہ نہیں؟عام رواج ہے کہ لوگ روپیہ دے کر زمین رہن لے لیتے ہیں اور مالک زمین جب تک روپیہ ادا نہ کرے،دس سال یا پندرہ سال ہوں،اتنے سال کی زکوۃ روپیہ والا نہیں دیتا۔کہتا ہے کہ میرے پاس روپیہ موجود نہیں ہے،کس چیز کی زکوۃ دوں اور زمین کا انتفاع کھاتاہے۔جب کچھ روپیہ جمع ہوجاتا ہے تو زمین رہن لے لیتا ہے غرض بعض ہزار کا دولتمند ہے بعض دو ہزار بعض تین ہزار کا ،مگر زمین گروی لے جاتا ہے اور روپیہ کی زکوۃ ایک پیسہ نہیں دیتا۔اسی طرح ایک شخص نے دو تین سو روپیہ کسی سے قرض لیا ہے،قرض دیے کو سال گزر گیا،مگر روپیہ قرضائی نے ابھی نہیں ادا کیا،آیا اس شخص پر مقروض روپیہ کی زکوۃ بعد حولانِ حول کے فرض ہوگی یا نہیں؟
دونوں مندرجہ سوال صورتوں میں سے پہلی صورت میں کسی گزشتہ سال کی زکوۃ دائن(مرتہن) پر اس دین کی بابت فرض نہیں ہے۔اسی طرح دوسری صورت میں گزشتہ سال کی زکوۃ مقروض پر اس قرض کی بابت نہیں ہے۔بلکہ پہلی صورت میں ہرسال مدیون(راہن) پر اور دوسری صورت میں مستفرض پر فرض ہے(بشرط یہ کہ راہن مذکور اور مستقرض مذکور صاحب نصاب ہوں اور نصاب پر حولانِ حول بھی ہوچکا ہو۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے،چنانچہ خود ان کی کتاب"کتاب الآم"(طبع مصر) میں یہ مصرح ہے اور استدلال میں وہی اثر حضرت عثمان کا پیش کیا ہے،جس کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے:
بلا شبہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے کہ یہ تمہاری زکوۃ کا مہینہ ہے لہذا جس کے ذمے قرض ہو،وہ اپنا قرض ادا کرے،تاکہ تمہارے اصل مال باقی رہ جائیں تو تم ان کی زکوۃ ادا کرو۔
کیونکہ ا سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر مدیون ادائے زکوۃ کے وقت قبل اپنے اپنے ذمہ کے دین نہ ادا کیے رہیں گے ،توکل مال کی جو ان کے پاس موجود ہوگا،زکوۃ دینی پڑے گی،ورنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پہلے ہی اس بات کو گوش گزار کردینا بے فائدہ ٹھہرے گا۔دائن یعنی مرتہن کا یہ کہنا کہ روپیہ میرے پاس موجود نہیں ہے کس چیز کی زکوۃ دوں؟بہت ٹھیک ہے اس روپیہ سے فائدہ تو اٹھائے مدیون اور زکوۃ فرض ہودائن پر،کسی آیت یا حدیث سے اس کا ثبوت معلوم نہیں ہوتا،ہاں دائن جو زمین کا انتفاع کھاتا ہے،یہ بے شک ناجائز اور برا ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
[1] ۔موطا امام مالک(593)